بھارت: پیسہ بناؤ ٹیکس بچاؤ
2 اپریل 2013جنوبی ایشیائی ملک بھارت میں اب بھی بڑے پیمانے پر غربت پائی جاتی ہے تاہم آج کل وہاں امراء کی بھی ایک کثیر تعداد موجود ہے۔ نئی دہلی کے ایمپوریو شاپنگ مال کے اردگرد پارکنگ میں باوردی ڈرائیوروں کے ساتھ کھڑی جیگوار گاڑیاں اور لوگوں کے ہاتھوں میں مہنگے انٹرنیشنل برانڈز کے شاپنگ بیگ بآسانی دیکھے جا سکتے ہیں۔
اسی طرح ممبئی شہر کے رہنے والے بھی لامبورگينی سے کم کوئی گاڑی رکھنے پر تیار نظر نہیں آتے، وہ اپنے گھروں میں برقی زینے نصب کروا رہے ہیں، اب وہاں کے فیشن میگزین ہیروں سے جڑی ہوئی گھڑیوں کے اشتہارات شائع کرتے ہیں۔
سوال لیکن یہ ہے کہ بھارت میں آسانی سے نظر آ جانے والے یہ لوگ انکم ٹیکس کی ادائیگی کے وقت کہاں غائب ہو جاتے ہیں؟ تب یہ ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتے۔ اس حوالے سے نئی دہلی میں ٹیکس کے ایک ممتاز ماہر سونو لائر کا کہنا ہے، یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ شہریوں کی ایک قلیل تعداد ہی ٹیکس ادا کرتی ہے، ٹیکس چوری ہر جگہ عام ہے،’یہ دھڑلے سے کی جا رہی ہے‘۔
بھارتی وزیر خزانہ چدم برم نے فروری کے اواخر میں ملک کے اعلٰی مراعات یافتہ طبقے کے لیے ایک نئی ٹیکس اسکیم متعارف کروا کر لوگوں کو حیران کر دیا۔ اس اسکیم کے تحت ایک کروڑ روپے سالانہ (ایک لاکھ پچاسی ہزار ڈالر) کمانے والے ٹیکس کی زد میں آئیں گے۔ لوگوں کو حیرانگی اس اعلان پر نہیں ہوئی کیونکہ اس کے حوالے سے بہت سے لوگ پہلے ہی سے جانتے ہیں، بلکہ اصل وجہ یہ ہے کہ اس اسکیم کے تحت کتنے لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لایا جا سکے گا؟ یہ تعداد 42,800 ہے، جی ہاں ایک ارب بیس کروڑ کے ملک میں صرف 42,800 افراد!
ایک ایسے ملک میں، جہاں کی تیزی سے ترقی کرتی ہوئی معیشت ہر سال ہزاروں لوگوں کو لکھ پتی بنا رہی ہے اور جہاں ہر دسواں شخص خود یہ مانتا ہے کہ وہ ٹیکس نیٹ میں آتا ہے، جہاں ماضی قریب میں آنے والے بین الاقوامی مالیاتی بحران میں بھی سامان تعیش کی صنعت کوئی خاص متاثر نہیں ہوئی تھی، وہاں یہ تعداد یقیناﹰ اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر ہے۔ لہٰذا چدم برم جی کی حالیہ ٹیکس اسکیم پر حیرانگی تو بنتی ہے۔
ممبئی کی ایک ٹیکس فرم سے وابستہ جمال میکلائی کے مطابق بھارت میں ٹیکس چوری ہر امیر آدمی کی فطرتِ ثانیہ بن چکی ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ وہ سن 2010ء کے ایک مالیاتی جائزے کے مطابق بھارت میں کم و بیش ایک لاکھ 58 ہزار افراد ایسے ہیں، جو ڈالرز میں کروڑ پتی ہیں لیکن کچھ دیگر ماہرین کے مطابق یہ تعداد اس سے بھی کہیں بڑھ کر ہے۔
بھارت میں صرف کروڑ پتی ہی نہیں بلکہ ملک کی اکثریتی آبادی ایسی ہے، جو ٹیکس ادا کرنے سے بھاگتی ہے۔ وہاں انکم ٹیکس ریٹرن جمع کرانے والے لوگوں کی شرح صرف تین فیصد ہے۔ نئی دلّی حکومت کی جانب سے ٹیکس استثنٰی حاصل ہونے کی وجہ سے بھی لوگوں کی اکثریت ٹیکس جمع نہیں کراتی، زرعی شعبے ہی کو لے لیجیے، آپ کی زرعی آمدنی کروڑوں ہی میں کیوں نہ ہو، آپ کو ٹیکس قوانین کے تحت رعایت حاصل ہو گی۔
بھارت میں ٹیکس چوری کرنے والوں کے پاس اپنے اس اقدام کے لیے اپنا استدلال موجود ہے۔ کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنی محنت سے سب کچھ بنایا ہے تو ٹیکس کیوں ادا کریں۔ کچھ یہ کہتے ہیں کہ سیاست دان کرپشن کے پیسے سے امیر تر ہوتے جا رہے ہیں لہٰذا وہ ٹیکس دے کر اپنی کمائی کیوں لٹائیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر حکومت ٹیکس اصلاحات میں واقعی سنجیدہ ہے تو اس حوالے سے شہریوں کا اعتماد بحال کرنا ہو گا اور ملک میں اس حوالے سے مؤثر قانون سازی کرنا ہو گی۔