بھارت: کرفیو اور دیگر پابندیوں کے باوجود مظاہرے جاری
21 دسمبر 2019بھارتی حکام نے آج ہفتے کو بتایا کہ مظاہرین اور پولیس کے مابین ہونے والے تصادم میں جمعے کے روز مزید چار افراد ہلاک ہو گئے ہیں اور ان میں ایک آٹھ سالہ بچہ بھی شامل ہے۔ بھارت میں متنازعہ شہریت ترمیمی کے خلاف شروع ہونے والے مظاہرے دوسرے ہفتے میں داخل ہو گئے ہیں۔ ملک بھر میں ان مظاہروں میں مرنے والے کی تعداد اس طرح بیس ہو گئی ہے۔
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے موجودہ صورتحال پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے اپنے وزراء سے ملاقات کی ہے۔ اس دوران ان پرتشدد مظاہروں کے خاتمے کے لیے سلامتی کے ممکنہ اقدامات کے موضوع پر بات چیت ہوئی۔ اسے بھارت کی ہندو قوم پرست حکومت کے لیے ابھی تک کا سب سے بڑا مسئلہ قرار دیا گیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ آج ہفتے کے روز بھی مختلف علاقوں میں کرفیو اور مظاہروں کے سخت ضوابط کے حکم نامے کے باوجود احتجاج جاری ہے۔
ان مظاہروں سے سب سے متاثر بھارت کی آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑی ریاست اتر پردیش ہے، جہاں پر اب تک نو افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ کئی زخمیوں کی حالت تشویش ناک بتائی جا رہی ہے۔ اتر پردیش میں شہری حقوق کے لیے سرگرم افراد نے بتایا کہ پولیس نے ان کے گھروں اور دفاتر پر چھاپے مارے تاکہ وہ نئے احتجاج کی منصوبہ بندی نہ کر سکیں۔ آج ہفتے کو نئی احتجاجی لہر شروع ہونے کے بعد انتظامیہ نے ریاست کے تمام اسکول بند رکھنے کا حکم دیا ہے۔
اس کے علاوہ آسام میں بھی نئے مظاہرے شروع کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ اس ریاست میں پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے مہاجرین بھارتی شہریت کے حصول کے لیے 2015ء سے پہلے سے آباد ہیں۔ آل آسام اسٹوڈنٹ یونین کے سموجل بھٹا چاریہ نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا،'' آسام بھر میں ہونے والے مظاہروں میں ہزاروں خواتین بھی حصہ لے رہی ہیں۔ اس قانون کے خلاف شروع ہونے والی تحریک دن بہ دن زور پکڑ رہی ہے۔‘‘
بھارت میں کئی حلقے شہریت کے اس متنازعہ قانون کو مسلمانوں کے خلاف نسلی امتیاز قرار دے رہے ہیں۔ اپنی سیکیولر اقدار پر فخر کرنے والے ملک بھارت میں اس قانون کے تحت شہریت کے حصول کو مذہب سے جوڑا گیا ہے۔
ع ا / ع ب (خبر رساں ادارے )