بھارت: کورونا کے سبب والدین پر لڑکیوں کا 'بوجھ‘ بڑھ گیا
30 جون 2021مغربی بنگال کے مرشدآباد کی رہنے والی پندرہ سالہ نیلم کی گزشتہ مئی میں شادی ہوئی ہے۔ یہ شادی گزشتہ دنوں آنے والے سمندری طوفان یاس سے چند دنوں قبل ہوئی۔ نیلم کے والدین کورونا وبا کی وجہ سے پہلے ہی پریشان تھے اور انہیں محسوس ہوا کہ سمندری طوفان کی وجہ سے انہیں بھی کافی نقصان اٹھانا پڑسکتا ہے لہذا طوفان کی آمد سے پہلے ہی انہوں نے بیٹی کی شادی کر دی۔
مغربی بنگال بھارت کے ان پانچ ریاستوں میں سے ایک ہے، جہاں کم عمری میں شادی کا رواج سب سے زیادہ ہے۔ بھارت میں اوسطاً بارہ فیصد لڑکیوں کی شادی پندرہ سے انیس برس کے درمیان کر دی جاتی ہے جبکہ مغربی بنگال میں یہ شرح 25.6 فیصد ہے۔
مغربی بنگال کے دارالحکومت کولکاتا میں سرگرم غیر سرکاری تنظیم جبلا ایکشن ریسرچ آرگنائزیشن سے وابستہ بیتالی گانگولی نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ”ریاست میں ایسے کنبوں کی تعداد کافی زیادہ ہے جویومیہ مزدوری پر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ کووڈ کی وجہ سے انہیں کام ملنا بند ہوگیا اور اب انہیں معاشی پریشانیوں سے گزرنا پڑ رہا ہے۔"
مغربی بنگال میں حقوق اطفال کی ایک تنظیم کا کہنا ہے کہ پوری ریاست میں اور بالخصوص دیہی علاقوں میں ایسی شادیوں کے واقعات کافی تیزی سے بڑھے ہیں جو کہ تشویش کا باعث ہیں۔
بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکن وپلو منڈل نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،”ہم نے کورونا وبا کے دوران بچوں کی کئی شادیاں روکنے کی کوشش کی۔ کئی مرتبہ ہم اپنی کوشش میں کامیاب بھی ہوئے لیکن اسے روکنے کے لیے غیر سرکاری تنظیموں کی مداخلت کے علاوہ بھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔"
بھارت میں کم عمری کی شادی غیر قانونی ہے، لیکن اس کے باوجود یہ رواج جاری ہے اور بعض ریاستوں میں اسے سیاسی رہنماؤں کی سرپرستی بھی حاصل ہے۔ بھارت نے سن 2006 میں کم عمری میں شادیوں کے خلاف قانون بنایا تھا لیکن وہ اب بھی پوری طرح نافذ نہیں ہوسکا ہے۔
گوکہ سن 2001 کے بعد سے ملک میں ایسی شادیوں کے واقعات کم ہونے لگے ہیں لیکن اس کے باوجود سن 2011 کی مردم شماری کی رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ بھارت میں شادی کے وقت ہر تین میں سے ایک خاتون کی عمر اٹھارہ برس سے کم تھی۔ یہ شرح دیہی علاقوں میں زیادہ ہے جہاں بھارت کی دو تہائی آبادی رہتی ہے۔ بھارت میں لڑکیوں کے لیے شادی کی قانونی عمر کم ا ز کم اٹھارہ برس اور لڑکوں کے لیے اکیس برس ہے۔
’بچوں کی جبری شادیاں کورونا وائرس سے بڑا خطرہ‘
بھارت: لڑکیوں کی شادی 18برس میں ہو یا21 میں؟
صنفی تفریق
کم عمری کی شادی کے معاملے میں بھی صنفی تفریق واضح طور پر دیکھنے کو ملتی ہے۔ اس سے لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیاں زیادہ متاثر ہوتی ہیں۔ ماہرین کے مطابق کم عمری میں شادی کا خواتین کے جسمانی اور ذہنی ترقی پر اثر ہوتا ہے۔
کم عمری کی شادیوں میں اضافہ کیوں؟
بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایناکشی گانگولی نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ کورونا وبا کے دوران بچوں کی شادی کی تعداد آسمان چھورہی ہے، ”معاشی طور پر کمزور والدین کم عمری میں ہی اپنی بیٹی کی شادی کر دیتے ہیں تاکہ وہ بیٹی کی کفالت پر ہونے والے اخراجات سے بچ جائیں۔"
بھارت میں یونیسیف کی نمائندہ یاسمین علی حق نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،”کووڈ انیس کی وجہ سے بھارت میں اس صورتحال کی وجہ سے سے وہ فکر مند ہیں۔ وبا کی وجہ سے اسکول بند ہوگئے ہیں۔ اقتصادی طور پر لوگوں کو کافی نقصان ہوا ہے اور سماجی خدمات میں رکاوٹیں پیدا ہورہی ہیں۔ ان تمام اسباب سے بچوں کی شادی کے خطرات مزید بڑھ سکتے ہیں۔"
کم عمری کی شادیاں: پاکستان دنیا میں چھٹے نمبر پر، ہر شادی ایک المیہدنیا کے ہر پانچویں لڑکے کی شادی بچپن میں ہی کر دی جاتی ہے
یونیسیف کی نمائندہ کا کہنا تھا کہ ایسی شادیوں کے واقعات پر قابو پانے کے لیے ضلعی سطح پر موجودبلدیاتی اداروں کو مضبوط بنانا چاہیے تاکہ افسران تیزی سے کارروائی کرسکیں۔
مرلی کرشنن/ ج ا