بھارت کی بڑھتی آبادی کے لیے پانی کا بحران سنگین تر
20 مارچ 2012نئی دہلی کے ضلع نجف گڑھ کے 50 سالہ دکاندار راجندر سنگھ کی ہر صبح کا آغاز نلکے سے پانی لینے کے لیے انتظار سے ہوتا ہے۔ جونہی بالٹی میں پانی کا پہلا قطرہ گرتا ہے تو ان کے اہل خانہ میں نہانے، کپڑے دھونے اور ٹینک میں پانی ذخیرہ کرنے کی جدوجہد شروع ہو جاتی ہے۔ تاہم پانی کا یہ انتظار کبھی نصف گھنٹے سے بڑھ کر اگلے دن تک بھی پہنچ جاتا ہے۔
راجندر سنگھ کی اہلیہ نے بتایا، ’ہمارے دن اور زندگیوں کا بیشتر حصہ اس مایوس کن انتظار میں گزر جاتا ہے اور ہمیں یہی فکر دامن گیر رہتی ہے کہ آیا گھر کی ضروریات کے لیے پانی پورا ہو گا یا نہیں۔‘
نجف گڑھ شہر کا واحد علاقہ نہیں ہے جو اس بحران سے گزر رہا ہو۔ ملک کے جنوبی حصوں میں چنئی جیسے شہر کو بھی ایسی ہی صورت حال درپیش ہے جہاں سرکاری نلکوں سے پانی بھرنے کے منتظر افراد میں چھینا جھپٹی اور مار دھاڑ کے مناظر عام دکھائی دیتے ہیں۔ علی پور کے علاقے میں تو پانی کے حصول کے لیے قتل جیسا واقعہ بھی پیش آ چکا ہے۔
طویل اور جھلسا دینے والی گرمی کا موسم کچھ ہی عرصے میں شروع ہونے والا ہے اور نئی دہلی کے باسیوں کے لیے آزمائش کی گھڑیاں اب آنے والی ہیں۔
جہاں پانی دستیاب ہے، وہ بھی زہر آلود ہو چکا ہے۔ بعض علاقوں میں پینے کے پانی کے نمونے لیے گئے تو ان میں کیڑے مار ادویات اور بھاری دھاتوں کی موجودگی کے آثار پائے گئے۔
نجف گڑھ کے باسی بی ایس یادیو نے شاکی انداز میں کہا، ’یہ زہریلا پانی پی کر ہم ہر روز آہستہ آہستہ مر رہے ہیں، مگر کیا ہمارے پاس کوئی متبادل ہے؟’ انہوں نے کہا کہ پانی کے باعث پھیلنے والی بیماریوں کے بہت سے واقعات کی نشاندہی ہوئی ہے اور لوگ یرقان، ہیضے، جلد کی بیماریوں اور سر کے بالوں میں قبل از وقت سفیدی کے شکار ہو رہے ہیں۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ملک میں پانی کی سالانہ مانگ بڑھ کر 830 بلین کیوبک میٹر تک پہنچ چکی ہے مگر اس کی فراہمی 1,123 بلین کیوبک میٹر پر رکی ہوئی ہے۔ جلد ہی پانی کی مانگ اس کی فراہمی سے تجاوز کر جائے گی۔ آئندہ چند برسوں میں پانی کی فراہمی ایک ہزار بلین کیوبک میٹر سے نیچے گرنا شروع ہو جائے گی جبکہ 2050 ء تک طلب 1,447 بلین کیوبک میٹر تک پہنچ جائے گی۔
بھارت میں پانی کی کمیابی کے باعث فصلیں تباہ ہونے کے نتیجے میں ہر سال 16,000 کسان خودکشی کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ جہاں ایک طرف پانی ایک نایاب قدرتی وسیلہ بنتا جا رہا ہے تو دوسری جانب اس کا ضیاع بھی عام ہے۔ دہلی کے جنوبی علاقے گریٹر کیلاش میں رہائش پذیر ایک تاجر نے کہا کہ ان کے ہمسایے گاڑیاں دھونے اور پودوں کو پانی دینے کے لیے یومیہ 3,000 لٹر سے زائد پانی استعمال کرتے ہیں۔
پانی کے مسئلے کے سبب بھارت کے اپنے ہمسایہ ملکوں بنگلہ دیش، پاکستان اور چین کے ساتھ کشیدگی بڑھ رہی ہے۔
فاؤنڈیشن برائے غیر متشدد متبادل کی ڈائریکٹر ریبون دھر نے کہا، ’ایشیا دنیا کا خشک ترین بر اعظم ہے جہاں تازہ پانی کی دستیابی عالمی اوسط شرح کا نصف بھی نہیں ہے۔'
رپورٹ: حماد کیانی
ادارت: افسر اعوان