بھارت کے ساتھ سرحدی تنازعے پر چین سخت تر موقف کی جانب گامزن
3 اگست 2017سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ چینی حکومت کی کوشش ہو گی کہ ستمبر کے اوائل میں چینی شہر ژیامن میں ہونے والی برِکس کانفرنس سے قبل بھارت کے ساتھ سرحدی تنازعے کو حل کر لیا جائے۔
برکس گروپ میں بھارت اور چین کے علاوہ برازیل، روس اور جنوبی افریقہ بھی شامل ہیں۔ سفارتی ذرائع کے مطابق چین یہ بھی چاہے گا کہ اس بات کی یقین دہانی کرائی جائے کہ ترقی پذیر ممالک کے درمیان دوستی اور تعاون جاری ہے۔
تاہم مبصرین کے مطابق یہ اتنا آسان نہیں ہو گا۔ ابھی بدھ ہی کے روز چین نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ بھارت چین کی سرزمین پر فوجی مداخلت کے لیے جھوٹے بہانے تراش رہا ہے۔
چینی وزارت خارجہ نے کہا تھا ،’’ چین اپنے جائز حقوق اور مفادات کی حفاظت کے لیے تمام ضروری اقدامات کرے گا۔‘‘
کوہ ہمالیہ میں واقع ڈوکلام کے مقام پر چین، بھارت اور بھوٹان کی سرحدیں ملتی ہیں۔ اس علاقے کے ایک حصے پر تینوں ملک اپنا حق جتاتے ہیں۔ اس ملکیتی تنازعے کی وجہ سے دونوں بڑے ملکوں کی فوجیں آمنے سامنے ہیں۔ اس سرحدی مقام کے قریب چین ایک سڑک تعمیر کر رہا ہے اور بھارت اس کی مخالفت کرتا ہے۔
چین کے بیان پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے بھارتی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا،’’بھارت سمجھتا ہے کہ چین اور بھارت کی سرحدوں پر امن اور سکون دونوں ممالک کے دو طرفہ تعلقات کی نمو کے لیے شرطِ اوّلین ہیں۔‘‘
تنازعے کے حل کے لیے دونوں ممالک کے مابین پس پردہ بات چیت ہو رہی ہے تاہم اب تک اس سے کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ گزشتہ ہفتے چین کی وزارت دفاع کے ترجمان کرنل وُوچیان نے کہا تھا کہ اُن کی پیپلز لبریشن آرمی اپنے ملک کی جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کرنا بخوبی جانتی ہے۔ ترجمان نے بھارت کو متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ سطح مرتفع ڈوکلام پر کسی عسکری مہم جوئی کی کوشش نہ کرے وگرنہ صورت حال مزید بگڑ سکتی ہے۔
چینی وزارت دفاع کے ترجمان نے یہ بھی کہا کہ گزشتہ نوے برسوں کی تاریخ میں پیپلز لبریشن آرمی نے ثابت کیا ہے کہ وہ اپنے ملک کی جغرافیائی سرحدوں اور ملکی اتحاد کو مسلسل مضبوط کرنے میں مصروف رہی ہے۔ خیال رہے کہ چین اسی علاقے سے ایک سڑک کی تعمیر جاری رکھے ہوئے ہے جو پہاڑی علاقے یادونگ سے تبت جائے گی۔