بھارت: کئی وزرائے اعلیٰ کا زیادہ بچے پیدا کرنے پر زور
22 اکتوبر 2024آندھرا پردیش کے وزیر اعلیٰ این چندرابابو نائیڈو کی تیلگو دیشم پارٹی مرکز کی بی جے پی حکومت کی ان دو اہم اتحادیوں میں سے ایک ہے، جن کی بیساکھی کے سہارے مودی حکومت قائم ہے۔ نائیڈو نے گزشتہ دنوں کہا کہ "زیادہ بچے پیدا کرنا بھی آپ کی ذمہ داری ہے۔ یہ صرف آپ اپنے لیے نہیں کریں گے، بلکہ یہ بھی قوم کے فائدے کے لیے ہے، یہ معاشرے کی خدمت ہے۔"
انہوں نے مزید کہا،"ہمارے لیے ڈیموگرافی کا فائدہ صرف 2047 تک ہے۔ 2047 کے بعد، آندھرا پردیش میں نوجوانوں سے زیادہ عمر رسیدہ افراد ہوں گے۔ پہلے ہی جاپان، چین اور یورپ کے کئی ممالک میں ایسا ہو رہا ہے۔"
کیا بھارت آبادی کے چیلنج سے نمٹ سکتا ہے؟
نائیڈو نے ماضی میں بھی اسی طرح کے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ریاست کی آبادی کی اوسط عمر فی الحال 32 سال ہے، وہ 2047 تک 40 ہو جائے گی۔
نائیڈو کے بیان کے چند دنوں بعد پیر کے روز ان کی پڑوسی ریاست تمل ناڈو کے وزیر اعلی ایم کے اسٹالن نے بھی انہیں خیالات کا اظہار کیا۔ ایک اجتماعی شادی کی تقریب کے دوران انہوں نے '16 بچے' پیدا کرنے کا مشورہ دے دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ آنے والے دنوں میں ممکنہ سیاسی نمائندگی کی تبدیلیوں کے مدنظر یہ ضروری محسوس ہوتا ہے۔
زیادہ بچے پیدا کرنے کے لیے قانون سازی
نائیڈو کا کہنا تھا کہ ریاستی حکومت ایک ایسا قانون لانے کا منصوبہ بنا رہی ہے جس کے تحت صرف دو یا اس سے زیادہ بچے والے لوگ ہی بلدیاتی انتخابات میں حصہ لے سکیں گے۔
بھارت: مسلم شرح پیدائش میں کمی، ہندو قوم پرستانہ سوچ کی نفی
انہوں نے 7 اگست کے ریاستی کابینہ کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، "ہم نے پہلے کے قانون کو منسوخ کر دیا ہے جس میں دو سے زیادہ بچوں والے لوگوں کو بلدیاتی انتخابات میں حصہ لینے سے روک دیا گیا تھا۔ ہم ایک نیا قانون لائیں گے تاکہ صرف دو سے زیادہ بچوں کے حامل افراد کو انتخاب لڑنے کا اہل بنایا جائے۔"
نائیڈو نے کہا کہ کئی اضلاع میں دیہاتوں میں صرف عمر رسیدہ لوگ رہتے ہیں کیونکہ نوجوان نسل ملک کے دوسرے حصوں اور بیرون ملک منتقل ہو جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کی اوسط آبادی میں اضافہ 1950 کی دہائی میں 6.2 فیصد سے کم ہو کر 2021 میں 2.1 ہو گئی ہے اور آندھرا پردیش میں یہ تعداد صرف 1.6 فیصد پر آ گئی ہے۔
آبادی کا بڑھتا ہوا بوجھ اور پاکستانی شہروں کا مستقبل
نائیڈو نے کہا، "میں ایک زمانے میں آبادی پر قابو پانے کے حق میں تھا، اور دو سے زائد بچوں کے حامل افراد کو الیکشن لڑنے سے روکنے کے لیے قانون سازی کی گئی تھی… مجھے ڈر تھا کہ بہت بڑی آبادی پانی، زمین اور دیگر وسائل کی قلت کا سبب بن جائے گی۔ آپ نے میری بات سنی اور صرف 10 سالوں میں آندھرا پردیش میں آبادی کو کم کر دیا۔ اب، مجھے ڈر ہے کہ ہماری ریاست میں نوجوان آبادی کافی نہیں ہو گی۔"
تمل ناڈو کے وزیر اعلی ایم کے اسٹالن نے نائیڈو کے خدشات کی تائید کی اور لوگوں سے زیادہ بچے پیدا کرنے کو کہا۔ انہوں نےایک تمل کہاوت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ بزرگ نئے جوڑوں کو سولہ قسم کی دولت کی دعا دیتے ہیں۔
مسلمان اگر تفریق کا شکار ہیں تو ان کی آبادی کیوں بڑھی؟ بھارتی وزیر خزانہ
اسٹالن نے کہا،"میرے کہنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ 16 بچے پیدا ہوں... اب ایک ایسی صورتحال پیدا ہو گئی ہے جہاں لوگ سوچتے ہیں کہ انہیں ایک چھوٹا اور خوشحال خاندان کے بجائے 16 بچوں کی پرورش کرنی چاہیے۔"
رد عمل
دونوں وزرائے اعلیٰ کے بیانات نے آبادی کے کنٹرول پر ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔
بی جے پی حکومت کی ایک اور حلیف جنتا دل (یونائٹیڈ) کہا کہ وہ نائیڈو کے بیان سے متفق نہیں ہے۔
جنتا دل(یونائٹیڈ) کے رہنما کے سی تیاگی کہنا تھا، "چندرا بابو نائیڈو کے آبادی کے بارے میں ان کے اپنے خیالات ہوسکتے ہیں، لیکن ہماری رائے مختلف ہے۔" "اتحاد میں شامل مختلف پارٹیاں کچھ معاملات پر مختلف رائے رکھ سکتی ہیں۔ اقوام متحدہ سے لے کر مرکز تک سبھی اس بات پر متفق ہیں کہ بہت زیادہ آبادی خوراک کا بحران پیدا کر سکتی ہے۔"
دوسری طرف بی جے پی لیڈر کیلاش وجے ورگیہ نے کہا، "ملک کو بہت سی تبدیلیوں کی ضرورت ہے، اور اگر چندرا بابو نائیڈو ایسا کچھ کرتے ہیں، تو مجھے یقین ہے کہ یہ بہتری کی طرف ایک اچھا قدم ہے۔"
خیال رہے کہ بی جے پی کی مربی تنطیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے سربراہ موہن بھاگوت کئی سال قبل ہی ہندو جوڑوں سے زیادہ بچے پیدا کرنے کی اپیل کرچکے ہیں۔ انہوں نے 18 اکتوبر 2016 کو ہندوؤں کے ایک اہم اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا، "کون سا قانون کہتا ہے کہ ہندوؤں کی آبادی نہیں بڑھنی چاہئے؟ ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ جب دوسروں کی آبادی بڑھ رہی ہے تو ان (ہندوؤں) کے سامنے کیا روکاوٹ ہے؟" بھاگوت کے بیان پر بعض حلقوں نے شدید نکتہ چینی کی تھی۔
بارآوری کی شرح میں کمی
جنوبی بھارت کی ریاستیں مثلاﹰ تمل ناڈو، آندھرا پردیش، کیرالہ وغیرہ ملک میں خاندانی منصوبہ بندی اور آبادی میں کمی کے لیے مشعل بردار ہیں۔ تاہم ان ریاستوں کو، جنہوں نے بھارت کی آبادی کے مسئلے سے نمٹنے میں اہم کردار ادا کیا ہے، 2026 کے بعد لوک سبھا اور ریاستی قانون ساز اسمبلیوں کے حلقوں کی نئی حد بندی کی بنیاد پر پارلیمنٹ میں سیاسی نمائندگی میں کمی کا خدشہ لاحق ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر بھارت میں بارآوری کی شرح کم ہوتی ہے تو عمر رسیدہ افراد کی تعداد میں اضافہ ہو جائے گا۔ سن 2050 تک ہر پانچ میں سے ایک شخص 60 سال سے زیادہ عمر کا ہو گا۔
اقوام متحدہ کے آبادی فنڈ (یو این ایف پی اے) اور انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار پاپولیشن سائنسز(آئی آئی پی ایس) کی طرف سے تیار کردہ انڈیا ایجنگ رپورٹ 2023 کے مطابق تمل ناڈو، آندھرا پردیش، کیرالہ اور تلنگانہ میں عمررسیدہ افراد کی تعداد شمالی بھارت کی بہار، اترپردیش، جھارکھنڈ ، راجستھان اور مدھیا پردیش ریاستوں کے مقابلے نہ صرف زیادہ ہے بلکہ اگلی ایک دہائی میں اس میں مزید اضافہ ہو گا۔
آئی آئی پی ایس ممبئی میں ڈیموگرافک کے پروفیسر سرینواس گولی کا کہنا ہے کہ عمر رسیدہ افراد کی تعداد میں اضافے کا خدشہ حقیقی ہے۔ اور بارآوری کی شرح میں کمی نے اس مسئلے کو مزید سنگین بنادیا ہے۔