بھارتی کسانوں کے احتجاج میں جسٹن ٹروڈو بھی ’شامل‘
1 دسمبر 2020کینیڈیائی وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو پہلے ایسے غیر ملکی رہنما ہیں، جنہوں نے بھارت میں جاری کسانوں کی تحریک کے ساتھ اپنی ہمدردی اور تعاون کا باضابطہ اعلان کیا ہے۔ بھارت نے اس بیان کو’غیرضروری‘ اور دوسرے ملک کے گھریلو معاملات میں مداخلت قرار دیا ہے۔
جسٹن ٹروڈو نے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں کسانوں کی تحریک کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ صورت حال بہت تشویش ناک ہے۔ انہوں نے کہا، ”بھارت سے کسانوں کے احتجاج کی خبریں آ رہی ہیں۔ یہ صورت حال بہت تشویش ناک ہے۔ ہم سبھی اپنے اہل خانہ اور دوستوں کے تئیں فکر مند ہیں۔ مجھے معلوم ہے کہ ایسے بہت سے لوگ ہیں۔ میں آپ کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ کینیڈا پرامن احتجاج کرنے کے حق کے دفاع میں کھڑا ہے۔ ہم بات چیت پر یقین رکھتے ہیں اوراسی لیے ہم بھارتی حکام کو اپنے تحفظات سے آگاہ کرنے کے لیے کئی ذرائع سے ان کے پاس پہنچ گئے ہیں۔ یہ وقت سب کے متحد ہونے کا ہے۔"
اس سے قبل کینیڈا کے وزیر دفاع ہرجیت سنگھ نے بھی ٹوئٹر پر لکھا تھا، ”بھارت میں پرامن مظاہرین کے خلاف بے رحمی برتنا پریشان کن ہے۔ میرے حلقے کے کئی لوگوں کے خاندان وہاں ہیں اور انہیں اپنے رشتے داروں کے بارے میں تشویش ہے۔ صحت مند جمہوریت پرامن مظاہروں کی اجازت دیتی ہے۔ میں اس بنیادی حق کی حفاظت کی اپیل کرتا ہوں۔"
بھارت کا اعتراض
بھارت نے جسٹن ٹروڈو کے اس بیان کو’غیرضروری‘ اور دوسرے ملک کے گھریلو معاملات میں مداخلت قرار دیا ہے۔
بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان انوراگ سریواستوا نے ایک بیان میں کہا”ہم نے بھارت میں کسانوں سے متعلق کینیڈیائی رہنماوں کے کم علمی پر مبنی تبصرے دیکھے ہیں۔ا س طرح کے تبصرے غیر ضروری ہیں بالخصوص اس وقت جب یہ کسی جمہوری ملک کے داخلی معاملات کے سلسلے میں ہوں۔ یہ بات زیادہ بہتر ہے کہ سفارتی بات چیت کا سیاسی مقاصد کے لیے غلط استعمال نہیں ہونا چاہئے۔“
بات چیت کی دعوت
نئے زرعی قوانین کے خلاف احتجاج کرنے والے بالخصوص پنجاب اور ہریانہ کے کسانوں کو قومی دارالحکومت میں داخل ہونے سے روکنے کی اپنی تمام تر کوششوں کے ناکام ہوجانے کے بعد مودی حکومت نے کسانوں کے رہنماوں کو آج منگل کے روز بات چیت کے لیے مدعو کیا ہے۔
بھارتی وزارت زراعت کے سیکرٹری سنجے اگروال نے احتجاج میں شامل تیس سے زائد کسان یونینوں کو ایک خط لکھ کر بات چیت کے لیے مدعو کیا ہے۔ پہلے یہ بات چیت 3 دسمبر کو ہونے والی تھی۔
اس بات چیت میں بھارتی وزیر دفاع حکومت کی قیادت کریں گے۔ اس سے قبل آج صبح انہوں نے وزیر داخلہ امیت شاہ اور وزیر زراعت نریندر سنگھ تومر کے ساتھ حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی ( بی جے پی) کے صدر جے پی نڈا کی رہائش گاہ پر میٹنگ کی۔
کسانوں کے احتجاج سے پیدا شدہ تشویش ناک صورت حال کے مدنظر گزشتہ اڑتالیس گھنٹوں کے دوران حکومت کی یہ دوسری اعلی سطحی میٹنگ تھی۔ اس بحرانی صورتحال کی وجہ سے وزیر دفاع کو منگل کے دن ایک نیم فوجی دستے کی یوم تاسیس پر منعقد ہونے والے پروگرام میں اپنی شرکت بھی منسوخ کرنا پڑی۔
کسی نتیجے کی امید کم
یہ کسان ان نئے زرعی قوانین کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں، جن کے باعث انہیں خدشہ ہے کہ حکومت ان سے طے شدہ قیمتوں پر ان کی زرعی پیداوار خریدنا بند کردے گی اور یوں انہیں نجی اور بڑے کارپوریٹ خریداروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے گا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ منگل کو ہونے والی میٹنگ حکومت کسانوں کی 'غلط فہمیوں‘ کو دور کرنے اور انہیں یہ یقین دہانی کرانے کی کوشش کرے گی کہ نئے زرعی قوانین ان کے خلاف نہیں ہیں۔ ذرائع کا مزید کہنا تھا کہ احتجاج کرنے والے کسانوں کو یہ بھی سمجھانے کی کوشش بھی کی جائے گی کہ نئے قوانین تبدیل نہیں کیے جائیں گے۔
مودی اپنے مؤقف پر مصر
وزیر اعظم نریندر مودی نے نئے زرعی قوانین کا دفاع کرتے ہوئے ایک بار پھر کہا کہ یہ قدم کسانوں کے حق میں اٹھایا گیا ہے اور ان کا فائدہ ان درمیانہ اور چھوٹے کسانوں کو بھی ہوگا جو اب تک حکومتی اسکیموں کا فائدہ اٹھانے سے محروم تھے۔ انہوں نے کسانوں سے کہا کہ وہ مفاد پرست لوگوں کے بہکاوے میں نہ آئیں۔ افواہوں پر توجہ نہ دیں اور حکومت پر بھروسہ رکھیں۔
دریں اثنا احتجاج میں شامل دو کسانوں کی موت واقع ہو گئی۔ دوسری طرف متعدد ٹرانسپورٹ یونینوں نے بھی کسانوں کا ساتھ دینے کا اعلان کیا ہے اور کہا ہے کہ اگر حکومت نے ان کے مطالبات تسلیم نہیں کیے تو وہ بھی ہڑتال پر چلے جائیں گے۔