بھارتی کشمیر میں جی ٹوئنٹی کے اجلاس ’غیر ذمہ دارانہ فیصلہ‘
11 اپریل 2023پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد سے منگل گیارہ اپریل کو موصولہ رپورٹوں کے مطابق پاکستانی وزارت خارجہ نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ترقی یافتہ اور ترقی کی دہلیز پر کھڑے دنیا کے بیس ممالک کے گروپ جی ٹوئنٹی کے دو اجلاسوں کے لیے نئی دہلی حکومت کی طرف سے ایک متنازعہ خطے میں دو مقامات کا انتخاب کیا جانا قابل مذمت ہے۔
نئی دہلی جی ٹوئنٹی اجلاس انتشار کا شکار، مشترکہ اعلامیے کے بغیر ختم
بھارت نے، جو اس وقت ایک سالہ مدت کے لیے جی ٹوئنٹی کی سربراہی کر رہا ہے، گزشتہ جمعے کے روز ہی یہ سرکاری شیڈول جاری کیا تھا کہ بیس کے گروپ کی اگلی سربراہی کانفرنس اور اس سے پہلے کئی طرح کے اجلاس کب اور کہاں کہاں منعقد کیے جائیں گے۔
جی ٹوئنٹی سمٹ دہلی میں
بھارتی حکومت کو اس سال ستمبر کے اوائل میں جی ٹوئنٹی کے سربراہان مملکت و حکومت کی ایک کانفرنس کی میزبانی نئی دہلی میں کرنا ہے۔ حکومتی فیصلے کے مطابق اس گروپ کی صدارت کے عرصے میں بھارت کو جن کئی اجلاسوں کی میزبانی کرنا ہے، ان میں سے دو اجلاس اسی اور اگلے مہینے بھارت کے زیر انتظام کشمیر اور لداخ میں ہوں گے۔
جی ٹوئنٹی وزرائے خارجہ اجلاس میں مودی کا عالمی اتحاد پر زور
بھارت: جی ٹوئنٹی میں بھی ’ہندوتوا ایجنڈے‘ کی تشہیر کی کوشش
ان میں سے جی ٹوئنٹی کی ایک میٹنگ بھارت کے زیر انتطام کشمیر کے گرمائی دارالحکومت سری نگر میں اپریل میں ہو گی جبکہ یوتھ ٹوئنٹی کے نام سے ایک اجلاس کا انعقاد مئی میں کشمیر کے ہمسایہ خطے لداخ میں لیہہ کے مقام پر ہو گا۔
پاکستانی موقف
اس بارے میں پاکستان کی وزارت خارجہ کے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے، ''بھارت کا یہ غیر ذمہ دارانہ اقدام اس کی طرف سے اپنے ہی فائدے کے لیے کیے جانے والے ان اقدامات کے سلسلے کی تازہ ترین کڑی ہے، جن کے تحت وہ جموں کشمیر پر اپنا غیر قانونی قبضہ جاری رکھنا چاہتا ہے۔‘‘
سپریم کورٹ نے جموں و کشمیر میں حد بندی کو چیلنج کرنے والی عرضی خارج کر دی
بیان میں مزید کہا گیا، ''پاکستان بھارت کے اس فیصلے کی شدید مذمت کرتا ہے۔ ایسا کرتے ہوئے بھارت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کو نظر انداز کرنے کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ کے چارٹر میں درج اصولوں اور بین الاقوامی قانون کی بھی خلاف ورزی کر رہا ہے۔‘‘
پاکستانی وزارت خارجہ کی طرف سے یہ بیان جاری کیے جانے کے بعد نیوز ایجنسی روئٹرز نے جب بھارتی وزارت خارجہ سے اس بارے میں اس کا ردعمل دریافت کرنے کے لیے رابطہ کیا، تو حکام نے اس درخواست کا کوئی جواب نہ دیا۔
م م / ع ا (روئٹرز)