بیجنگ میں ہزاروں بچے اسکول نہیں جا سکیں گے
17 جولائی 2014فَینگ منِگ شِنگ کی عمر چھ برس ہے۔ اسے اس سال موسم خزاں میں اسکول شروع کرنا تھا لیکن اسے داخلہ نہ مل سکا اور وہ احتجاج کرنے پر مجبور ہو گیا۔ چینی دارالحکومت میں ہونے والے اس احتجاج کے دوران وہ زور زور سے چلاتا رہا، ’’میں اسکول جانا چاہتا ہوں۔‘‘ اس مظاہرے کا اہتمام اُن والدین کی جانب سے کیا گیا تھا، جن کے بچوں کو داخلے سے محروم رکھا گیا ہے۔ اس سلسلے میں یہ افراد مختلف سرکاری دفاتر کے سامنے بھی احتجاج کر چکے ہیں۔ ان میں وہ افراد بھی شامل ہیں، جو دس برسوں سے زائد عرصے سے چینی دارالحکومت میں رہ رہے ہیں۔ ان لوگوں نے اپنے کاروبار شروع کر رکھے ہیں اور چین کی اقتصادی ترقی میں ان کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ تاہم اب انہیں احساس ہو رہا ہے کہ جینی حکومت کے نئے ترقیاتی منصوبے میں ان کی کوئی جگہ نہیں ہے۔
چینی قانون تمام شہریوں کو نو سال مفت لازمی تعلیم کی ضمانت دیتا ہے۔ اس دوران کئی بڑے شہروں میں مہاجر گھرانوں کے بچوں کو ’ہوکوک‘ نامی اجازت نامہ دیکھے بغیر مقامی اسکول میں داخلہ دے دیا گیا تھا۔’ ہوکوک‘ ایک ایسا دستاویز ہے، جو کسی بھی شہری کو اندراج کرانے کے بعد جاری کی جاتی ہے۔ اس کے بعد اسے تمام سہولیات حاصل ہو جاتی ہیں۔ تاہم بیجنگ کے کچھ علاقوں کے اسکولوں کی انتظامیہ داخلہ دینے سے قبل والدین سے مطالبہ کر رہی ہے کہ وہ یہ ثابت کریں کہ وہ سوشل سکیورٹی ادا کرتے ہیں اور اسی علاقے میں رہتے اورکام کرتے ہیں۔ تاہم دوسرے علاقوں سے تعلق رکھنے والے ان افراد کے لیے یہ دستاویز حاصل کرنا مشکل ہوتا ہے کیونکہ وہ روزگار کی مختلف ایجنسیز کے توسط سے کام کرتے ہیں اور یہ کمپنیاں انہیں یہ دستاویز آسانی سے مہیا نہیں کرتیں۔
اس تناظر میں والدین اور شعبہ تعلیم کے ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت نے نقل مکانی کرنے والے افراد کو بیجنگ سے نکالنے کے لیے یہ پالیسی اپنائی ہے۔42 سالہ لی ژیالون کے مطابق، ’’حکومت ہمارے بچوں کو اسکولوں میں داخلے نہیں دے رہی۔ وہ کہتے کہ وسائل کی کمی ہے اور آپ لوگ بیجنگ سے واپس چلے جائیں۔‘‘ تاہم متعدد افراد کا کہنا ہے کہ بیجنگ اب ان کا گھر ہے اور وہ دیہی علاقوں میں واپس نہیں جا سکتے۔
اس سلسلے میں جب خبر رساں ادارے اے ایف پی نے بیجنگ کی شہری انتظامیہ سے رابطہ کیا تو اس کی جانب سے کوئی جواب نہیں آیا۔ چین نے گزشتہ برس ایک ایسی پالیسی کا اعلان کیا تھا، جس کے مطابق بڑے شہروں کے رقبے اور آبادی کو سختی سے کنٹرول کیا جائے گا۔
چین میں نجی اسکول بھی بڑی تعداد میں کھل رہے ہیں۔ تاہم سرکاری نظام کا حصہ نہ ہونے کی وجہ سے ان نجی اسکولوں سے فارغ ہونے والے طلبا کے پاس وہ سند نہیں ہوتی، جس کی بنیاد پر وہ یونیورسٹی میں داخلے کے لیے ہونے والے امتحان میں شریک ہو سکیں۔