ہم سب نے ہی جھوٹ بول کر رشتہ کروانے اور بعد میں زندگی تباہ ہوئے کا کوئی نہ کوئی واقعہ سن رکھا ہے۔ اس کی سب سے عام مثال نوکری اور مالی حیثیت سے متعلق غلط بیانی ہے۔ کوئی اپنا ریستوراں کا کاروبار بتا کے شادی کرتا ہے او در حقیقت کسی ریستوراں میں پارٹ ٹائم ویٹر ہوتا ہے۔ کسی نے سپر مارکیٹ اسٹور کے مالک ہونے کا دعوی کر رکھا ہوتا ہے مگر اصل میں وہاں شفٹ میں ملازمت کر رہا ہوتا ہے۔
گزشتہ دنوں سننے میں آیا کہ جرمنی کی ایک بڑی کوریئر کمپنی میں منیجر بتا کر شادی کی گئی اور لڑکی کو یہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ لڑکا تو کوریئر ہے۔ سچ پتا چلنے پر لڑکی کی زندگی بہت سی پریشانیوں میں گھر گئی اور اس کا وہاں سے نکلنا ایک بڑا مرحلہ ثابت ہوا۔
یہاں یہ نقطہ سمجھنا ضروری ہے کہ کوئی بھی پیشہ بڑا یا چھوٹا نہیں ہے مگر اصل مسئلہ جھوٹ اور غلط بیانی کا ہے۔ جھوٹ بول کر لڑکی کو بیرون ملک لانے کے بعد بہت سے حضرات یہی کوشش کرتے ہیں کہ وہ زبان نہ سیکھ سکے اور کسی بھی طرح خود مختار نہ ہو سکے کیونکہ اس طرح ان موصوف کی حقیقت کھلتی چلی جاتی ہے۔ یہ صورتحال بدقسمتی سے اکثر گھریلو تشدد اور ظلم کی صورت اختیار کر لیتی ہے اور زندگی اجیرن ہو جاتی ہے۔
جھوٹ بول کر زندگی کا اتنا بڑا فیصلہ کرنے والا شخص اور بھی برائیوں میں ملوث ہو سکتا ہے اور اس کی قانونی پکڑ بھی ہو سکتی ہے۔ کچھ برس قبل میرے جاننے والوں کی پڑھی لکھی بیٹی کی دھوم دھام سے شادی کی گئی اور بیرون ملک پہنچ کر پتہ چلا کہ اس کا شوہر کریڈٹ کارڈ فراڈ میں ملوث ہے۔ پھر اس شخص کو دس سال کی سزا ہو گئی اور اس نو بیاہتہ لڑکی کی زندگی ایک سوالیہ نشان بن کر رہ گئی۔
ایک اور پرانا حربہ مغرب میں پروان چڑھنے والے بچوں کو مجبور کر کے ان کی شادی پاکستان میں کرنے کا بھی ہے۔ ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں جہاں خاص طور پر بہو یا داماد کو ایسے گھرانوں سے لایا جاتا ہے، جو بظاہر حیثیت میں کم ہوں۔ اس کے بعد سسرال میں ان کی اہمیت ایک گھریلو ملازم کی طرح کی ہوتی ہے۔ پاکستان سے آنے والی بہت سی بہویں یا داماد جدید زندگی کے خواب دیکھ کر آتے ہیں اور یہاں آ کر مشکلات میں پھنس جاتے ہیں۔
شادی کو قانونی طور پر رجسٹر کروانا بہت ضروری ہے۔ اسی صورت میں میاں بیوی دونوں پر تمام حقوق وفرائض کی پابندی لازم ہوتی ہے اور خلاف ورزی کی صورت میں سخت قانونی کارروائی کی جا سکتی ہے۔ اگر والدین اپنی بیٹی یا بیٹے کا رشتہ جرمنی میں کر رہے تو یاد رکھیں کہ شادی کو قانونی طور پر رجسٹر کرائے بغیر ویزا ملے گا ہی نہیں۔ اور اگر کوئی ٹال مٹول سے کام لے رہا ہے تو سمجھ جائیں کہ دال میں کچھ کالا ہے۔ اور اگر دونوں خاندان جرمنی میں ہی رہائش پذیر ہیں تو صرف نکاح پر اکتفا نا کریں۔ کوشش کریں کہ نکاح کے فورا بعد شادی کو باقاعدہ رجسٹر کرایا جائے۔
اس کے ساتھ یہ بھی معلوم کریں کہ رشتہ کے امیدوار کی کہیں پہلے کوئی شادی درج تو نہیں ہوئی اور وہ اب صرف نکاح کرکے دوسری شادى کرنا چاہتا ہے؟ جرمنی کا قانون بیک وقت ایک سے زیادہ شادیوں کی اجازت نہیں دیتا مگر چونکہ صرف نکاح یا کسی بھی مذہبی تقریب کی قانونی حیثیت نہیں اس لیے بد قسمتی سے اکثر لوگ اس کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں۔
کچھ طلاق یافتہ خواتین کا کہنا ہے کہ بہت سی مشکلات کا مقابلہ کر کے جب وہ بالآخر ایک برے رشتے سے جان چھڑانے میں کامیاب ہوئیں تو فوراﹰ کچھ شادی شدہ افراد نے انہیں نکاح کی پیشکش کی۔ یہ جانتے ہوئے کہ جرمنی میں دوسری شادی کی کوئی قانونی حیثیت نہیں اور وہ بیوی کو کوئی حق دینے کے پابند بھی نہیں ہوں گے۔ اس کے باوجود یہ مرد یہ رشتہ قائم کرنے پر بضد رہے۔ ایسے حضرات بیک وقت دو زندگیاں تباہ کرنے کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔
ایک اور بڑھتا ہوا اور انتہائی خطرناک رجحان ہم جنس پرست مردوں کی پاکستانی لڑکیوں سے شادی ہے۔ ایسے مرد صرف والدین کی خوشنودی حاصل کرنے اور خاندان کے سامنے شادی شدہ ہونے کی مہر لگوانے کے لیے اپنی اصلیت چھپا کر پاکستان میں کسی لڑکی سے شادی کر لیتے ہیں۔ نئے ملک، نئی زبان اور نئے کلچر میں پہنچ کر لڑکی کو جہاں بہت کچھ نیا سیکھنا پڑتا ہے وہیں اس حقیقت کا مکمل احساس ہونے تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔
مختلف میچ میکنگ ایپس کے ذریعے بھی لوگ دھوکے دے رہے ہیں۔ایک بہت مشہور ایپ ہے، جو خاص کر شادی کے امیدوار مسلمان مرد و خواتین کے لیے بنائی گئی ہے۔ جہاں بہت سے لوگوں کو اس ایپ سے فائدہ ہوا ہے وہیں بد قسمتی سے کچھ لوگوں کی جانب سے اس کے غلط استعمال کی بھی خبریں سامنے آئی ہیں۔ بڑی تعداد میں شادی شدہ مرد اس ایپ پر خود کو غیر شادی شدہ ظاہر کر رہے ہیں اور ان کا مقصد یا تو ممکنہ رشتہ جوڑنے کی آڑ میں لڑکیوں سے گپ شپ اور فلرٹ کرنا ہو سکتا ہے یا وہ خفیہ طور پر دوسری شادی کرنا چاہتے ہیں۔ اسی طرح بعض خواتین بھی اس ایپ پر اپنی اصل شناخت چھپا کر صرف تفریح کے لیے یا پھر دل پھینک قسم کے مردوں کو بے وقوف بنا کر تحفے تحائف اینٹھنے کے چکر میں ہوتی ہیں۔
ان تمام ممکنہ مسائل کا حل آگاہی ہے۔ چاہے والدین ساتھی کا انتخاب کریں یا لڑکے لڑکیاں خود یہ فیصلہ لیں دونوں صورتوں میں مکمل معلومات حاصل کرنا انتہائی ضروری ہے۔ اندھا اعتماد اور ادھوری معلومات پر فیصلہ قطعاً نہیں کریں۔ دھوکہ دینے کی نیت سے کی جانے والی شادی میں ایک عام روایت جلد بازی ہے۔ اس لیے یہ فیصلہ لینے میں کبھی بھی جلدی نہ کریں۔
بیان کردہ معلومات میں خیال رکھیں کہ کہانیوں میں تضاد نہ ہو یا اگر کوئی کھل کر اپنے بارے میں معلومات فراہم نہیں کرتا تو اس ادھوری معلومات کو خطرے کی ایک گھنٹی سمجھیں۔ ہونے والے داماد یا بہو کے بارے میں اس کے کولیگز دوست احباب سے انفارمیشن حاصل کرنے کی پوری کوشش کریں۔ شادی کا فیصلہ لینے کے بعد بھی لڑکے لڑکیوں کو ایک نئے ملک مکمل تیاری کے ساتھ آنا چاہیے۔ بہت سے ذرائع موجود ہیں ان کا فائدہ اٹھائیں اور نئے ملک کے قوانین کو سمجھ کر اپنے حقوق کا مکمل علم رکھیں۔ کسی بھی ذہنی و معاشی مسائل اور جسمانی تشدد کی صورت میں پولیس سے رابطہ کریں۔ تحفظ دینے والی مختلف تنظیموں کی معلومات عام دستیاب ہیں ان سے ضرور رابطہ کریں۔ والدین کو بھی چاہیے کہ اپنی بچیوں کو دوسرے ملک بھیجنے سے پہلے انہیں ذہنی ، جذباتی اور معاشی طور پر بھی مضبوط بنائیں تاکہ کسی بھی مشکل آنے کی صورت میں وہ اپنا دفاع کر سکیں اور کسی مجبوری کے تحت ساری زندگی کسی دھوکے باز اور جھوٹے شخص کے ساتھ برباد نہ کریں۔
دھوکے باز افراد سے بچانے کے لیے خواتین بھی مختلف ایپ کے ذریعے کچھ اقدامات کر رہی ہیں۔ ایک ایسا فیس بک گروپ بھی بنایا گیا ہے، جہاں ممبران صرف خواتین ہیں اور وہ ایک دوسرے سے تصاویر اور نام شیئر کر کے سوال کر سکتی ہیں کہ اگر کسی ایپ میں کسی مرد نے ان سے رشتے کی نیت سے رابطہ کیا ہے تو وہ کہیں پہلے سے شادی شدہ تو نہیں۔ یہاں پہنچنے کے بعد اگر آپ کا ساتھی آپ کا پاسپورٹ پی آر اور نیشنلٹی کے لیے اپلائی کرنے میں دلچسپی نہ لے تو اس صورت میں بھی اپنی آنکھیں اور کان کھلے رکھیں کیونکہ یہاں بھی نیت دھوکہ دہی کی ہو سکتی ہے۔
خواتین کے لیے بھی بہت ضروری ہے کہ وہ خود زبان سیکھنے قوانین سمجھنے اور اپنے حقوق جاننے کی عملی کوشش کریں۔ ایک اور آخری اہم نقطہ یہ ہے کہ اگر کوئی آپ سے کسی اور شخص کی معلومات جاننے کی کوشش کرے تو خدارا کسی کی زندگی کا معاملہ معمولی نہ سمجھیں اور جو بھی حقیقت ہے وہ مکمل سچائی کے ساتھ ضرور فراہم کریں۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔