بیلاروس کی سرحد سے عراقی مہاجرین نے واپس جانا شروع کر دیا
18 نومبر 2021نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق بیلاروس کی سرحد پر موجود سینکڑوں عراقی مہاجرین نے اپنے ملک کی واپسی کی ٹکٹیں بُک کرانا شروع کر دی ہیں۔ سرحد پر شدید سردی اور کھلے آسمان کے نیچے مسلسل قیام انتہائی مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ منسک سے اربیل کی ایک پرواز عراقی اور کرد مہاجرین کو لے کر روانہ ہو چکی ہے۔
یورپی یونین کی نئی پابندیاں، بیلاروس کو کتنا نقصان ہو گا؟
بیلاروس کے علاوہ یہ مہاجرین بالٹک ریاستوں لیتھوینیا اور لیٹویا کی سرحدوں پر بھی جمع ہیں اور یورپی یونین میں داخلے کی ان کی خواہش سخت سکیورٹی کی وجہ سے ابھی تک ادھوری ہے۔
اب تک ان مہاجرین میں سے نو افراد شدید موسم کی وجہ سے اپنی زندگی ہار چکے ہیں۔ کئی ملکوں سے یورپی یونین کے دباؤ کے نتیجے میں ہوائی کمپنیوں نے بیلاروس کے دارالحکومکت منسک کے لیے پروازیں بھی معطل کر دی ہیں۔
عراقی اور کرد مہاجرین کی واپسی
بیلاروس اور پولینڈ کی سرحد پر ہزاروں مہاجرین میں بےشمار عراقی مہاجرین موجود ہیں۔ ان میں سے کم از کم چار سو تیس عراقی و کرد مہاجرین منسک سے اربیل کی ایک پرواز میں واپس روانہ ہو گئے ہیں۔ واپس جانے والوں میں کرد شہریوں کے علاوہ کئی عراقی بھی ہیں، جو اربیل پہنچ کر آگے بغداد کی جانب روانہ ہو جائیں گے۔ بتایا جاتا ہے کہ بیلاروس میں قریب چار ہزار عراقی مہاجرین ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں اور ان میں زیادہ تر کا تعلق کرد علاقوں سے ہے۔
یورپی یونین بیلاروس پر مزید پابندیاں لگا سکتی ہے
واپس جانے والے ایک تیس سالہ عراقی کرد نے نام مخفی رکھتے ہوئے بتایا کہ وہ بیلاروس سے لیتھوینیا اور پولینڈ میں داخل ہونے کی کم از کم آٹھ کوششیں کر چکا ہے لیکن ہر مرتبہ ناکامی ہوئی۔ یہ عراقی کرد اپنی بیوی کے ہمراہ آیا تھا۔ اس مہاجر نے روئٹرز کو بتایا کہ اس کی بیوی دوبارہ ایسی کوشش کرنے پر قطعی طور پر راضی نہیں کیونکہ اس نے کئی دہشت ناک مناظر دیکھ لیے ہیں۔
مہاجرین کی خواہش ادھوری رہی
سینکڑوں مہاجرین کی واپسی کی بنیادی وجہ سرحد پر پولستانی سرحدی محافظین اور دوسرے سکیورٹی اہلکاروں کی موجودگی ہے۔ ان کی وجہ سے سرحد عبور کرنا ناممکن ہو چکا ہے۔ اس سرحدی حفاظت کے لیے پولینڈ کو یورپی یونین کی بھی بھرپور حمایت حاصل ہے۔
چند ممالک کے شہریوں کے لیے ترکی سے منسک جانا اب ممکن نہیں رہا
واپس جانے والے مہاجرین نے انتہائی نامساعد حالات اور مشکل موسم کو بھی واپسی کی ایک اہم وجہ قرار دیا۔ ان کے مطابق اتنی سخت سردی میں رات دن ٹھٹھرتے رہنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ شدید سردی میں جنگل میں گزربسر بتدریج ناممکن ہوتا جا رہا ہے اور جلد ہی بہت سارے دوسرے مہاجرین بھی واپسی کی راہ اپنا سکتے ہیں کیونکہ بہت ساروں کے ساتھ چھوٹے بچے بھی ہیں۔
ع ح/ع ا (روئٹرز)