بیوگی سے بچنے کے لیے دو نیپالی بہنوں کی ہندو دیوتا سے شادی
29 اپریل 2016نیپالی دارالحکومت کھٹمنڈو سے جمعہ انتیس اپریل کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق ان کم سن بہنوں میں سے ریدھیما شریستھا کی عمر نو برس ہے اور وہ ایک مقامی اسکول میں تیسری جماعت کی طالبہ ہے۔ اس کی بہن کا نام ایشیتا شریستھا ہے اور اس کی عمر صرف تین سال ہے۔
آج جمعے کے روز جب ان دونوں بچیوں کی ایک ہندو دیوتا کے ساتھ شادی کی تیاریاں مکمل کی جا رہی تھیں، تو انہوں نے نہ صرف زرق برق ریشمی لباس بلکہ قدیم روایات کے مطابق سونے کے بہت سے زیورات بھی پہن رکھے تھے۔
اے ایف پی کے مطابق یہ دونوں کم عمر نیپالی بہنیں ہمالیہ کی اس ریاست کی ان درجنوں نابالغ لڑکیوں میں شامل ہیں، جن کی کھٹمنڈو میں رہنے والی قدیم نیواڑ آبادی کے افراد کی طرف سے ہر سال ’ایہی‘ کہلانے والی تقریب میں ہندوؤں کے ایک دیوتا کے ساتھ باقاعدہ شادی کر دی جاتی ہے۔
نیپال میں قدیم ’نیواڑ‘ آبادی میں نابالغ بچیوں کی ہندو دیوتا ’وِشنو‘ کے ساتھ شادی کی یہ رسم صدیوں پرانی ہے اور سماجی حوالے سے اس برادری کے لوگوں کی مذہبی رسومات کو ماہرین ہندو مت اور بدھ مت کی رسومات کے ملاپ کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔
اس رسم کے بارے میں ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ یہ کھٹمنڈو شہر کے تاریخی دربار اسکوائر میں سال میں کئی بار ادا کی جاتی ہے اور اس کے لیے لازمی ہے کہ جن لڑکیوں کی ’وِشنو‘ کے ساتھ شادی کی جائے، وہ ابھی جسمانی یا طبی طور پر بالغ نہ ہوئی ہوں۔
اے ایف پی نے اس قدیم نیپالی رسم کی وجوہات کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ نیواڑ برادری کے لوگوں کے مطابق ہر لڑکی کا پہلا خاوند ایک ’دیوتا‘ ہی ہوتا ہے۔ پھر بعد میں جب اس کی شادی کسی ’انسان‘ سے کر دی جاتی ہے تو اس رسم کے ذریعے دراصل اسے اپنی عمر کے کسی بھی حصے میں بیوہ ہونے سے بچا لیا جاتا ہے۔ اس لیے کہ اگر دوسرا شوہر (انسان) مر بھی جائے تو پہلے شوہر (دیوتا) کی وجہ سے وہ سہاگن بیوہ نہیں ہو گی اور یوں وہ خود کو ’معاشرے میں بیوہ عورت کے طور پر اپنی بہت بری سمجھی جانے والی حیثیت‘ سے بچا لیتی ہے۔
نیپال میں نیواڑ برادری کے لوگ اس کی ایک توجیہ یہ بھی پیش کرتے ہیں، ’’اگر کسی عورت کے دو شوہر ہوں تو انسانی شوہر کتنی بھی طویل عمر پا لے، وہ کبھی نہ کبھی تو انتقال کر ہی جاتا ہے۔ لیکن دیوتا وِشنو سے شادی کرنے والی کوئی بھی لڑکی اس لیے کبھی بیوہ نہیں ہوتی کہ دیوتاؤں کو تو موت نہیں آتی۔‘‘
ایسی ’شادیاں‘ مختلف ذیلی تقاریب کے ساتھ عام طور پر دو روز میں مکمل ہوتی ہیں، جس دوران سب سے اہم رسم یہ ہوتی ہے کہ کوئی بھی لڑکی اپنے ایک ہاتھ کی ہتھیلی پر ایک پھل رکھتی ہے اور دوسرے ہاتھ سے علامتی طور پر وِشنو کے مجسمے کو چھو لیتی ہے، جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس نے بیوی کے طور پر اپنا ہاتھ وِشنو کے ہاتھ میں دے دیا۔
کھٹمنڈو میں آج ہونے والی ایسی ہی ایک تقریب میں نو سالہ ریدیھما اور تین سالہ ایشیتا کے والد دیپندر شریستھا نے اے ایف پی کو بتایا، ’’یہ وہ روایات ہیں، جو ہمیں اپنے اجداد سے ملیں۔ ہمیں ہر حال میں انہیں زندہ رکھنا ہے، یہی ہماری ثقافت ہے اور یہی ہمارا مذہب بھی ہے۔‘‘