’بیٹا بے گناہ ہے، موت کی سزا نہ دیں‘، سعودی شاہ سے اپیل
23 ستمبر 2015نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق اس نوجوان کے والد محمد النمر نے ایک انٹرویو میں امید ظاہر کی کہ شاہ سلمان اُس کے بیٹے علی کو، جو فروری 2012ء میں اپنی گرفتاری کے وقت صرف سترہ سال کا تھا، بچا لیں گے۔ یہ کیس آج کل پوری دنیا کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔
محمد النمر نے بدھ کے روز اپنے بیٹے کے ڈیتھ وارنٹ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا:’’ہم امید کر رہے ہیں کہ وہ اُس پر دستخط نہیں کریں گے۔ سعودی عرب کی اعلیٰ ترین عدالت علی النمر کو موت کی سزا سنا چکی ہے اور اب اس نوجوان کی زندگی کا فیصلہ بادشاہ کے ہاتھوں میں ہے۔
محمد النمر نے خبردار کیا کہ اگر اُس کے بیٹے کو موت کی سزا دے دی گئی تو شیعہ اقلیت کی جانب سے پُر تشدد رد عمل سامنے آ سکتا ہے، جو کہ وہ خود بھی نہیں چاہتا:’’ہمیں اس کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم نہیں چاہتے کہ خون کا ایک بھی قطرہ بہے۔‘‘
یہ اکیس سالہ نوجوان ایک شیعہ مذہبی رہنما نمر النمر کا بھتیجا ہے۔ خود اس مذہبی رہنما نمر النمر کو بھی سزائے موت سنائی جا چکی ہے۔
نمر النمر کو اُن مظاہروں کے پیچھے کارفرما اصل قوت گردانا جاتا ہے، جو چار سال پہلے اُس مشرقی صوبے میں شروع ہوئے تھے، جہاں سنی اکثریت کے حامل اس ملک کے زیادہ تر شیعہ آباد ہیں۔
علی النمر کے والد نے اعتراف کیا کہ اُس کا بیٹا، جو ایک ہائی اسکول میں پڑھتا تھا، ہزاروں دیگر افراد کے ہمراہ احتجاجی مظاہروں میں شریک ہوا تھا۔ تاہم اُس نے کہا کہ اُس پر نقب زنی، پولیس پر حملہ کرنے اور آتش گیر بم پھینکنے کے جو متعدد دیگر الزامات عائد کیے گئے ہیں، وہ اُن کا مرتکب نہیں ہوا ہے اور بے گناہ ہے۔
بدھ کے روز فرانسیسی وزارتِ خارجہ نے بھی اپیل کی ہے کہ اس نوجوان کی سزائے موت پر عملدرآمد روک دیا جائے۔ وزارت کے ایک ترجمان نے کہا کہ اُن کا ملک کسی قسم کے بھی حالات میں سزائے موت کا مخالف ہے تاہم یہ نوجوان اُس وقت نابالغ تھا، جب یہ واقعات پیش آئے، جن کے الزام میں اُسے یہ سزا سنائی گئی ہے۔
اقوام متحدہ کے ماہرین نے بھی اس امر پر زور دیا ہے کہ اس نوجوان کی سزا معاف کر دی جائے۔ ان ماہرین کا کہنا ہے کہ اس نوجوان پر تشدد کر کے اُس سے اعترافِ جرم کروایا گیا اور کسی وکیل تک رسائی کا بھی مناسب موقع نہیں دیا گیا۔ مزید یہ کہ اُس کے کیس کی سماعت ایسے حالات میں ہوئی، جو بین الاقوامی معیارات سے مطابقت نہیں رکھتے۔