تارکین وطن کی آمد روکنے کے لیے یورپی یونین سرگرم
18 اکتوبر 2018یورپی یونین کی سربراہی اجلاس کے لیے تیار کردہ مشترکہ بیان کے مسودے میں زور دیا گیا ہے کہ ایسے ممالک کے ساتھ تعاون میں اضافہ کیا جائے گا، جہاں سے تارکین وطن یورپی یونین پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں جب کہ ساتھ ہی ان ممالک کو بھی ساتھ ملایا جائے گا، جو ان مہاجرین کے لیے ’ٹرانزٹ ممالک‘ کا کردار ادا کر رہے ہیں۔
بریگزٹ پر خصوصی یورپی سمٹ منسوخ کر دی گئی
'افغانستان خطرناک ملک ہے، مہاجرین کو واپس نہ بھیجا جائے‘
اس مسودے کے مطابق ایسے ممالک کے ساتھ تعاون میں اضافہ کیا جائے گا، جو انسانوں کی اسمگلنگ میں ملوث گروہوں سے متعلق تفتیش، ان کے انسداد اور ان کے خلاف مقدمات میں مصروف ہیں۔ یہ سربراہی اجلاس برسلز میں جاری ہے۔
واضح رہے کہ سن 2015ء سے اب تک یورپی یونین میں داخل ہونے والوں کی تعداد ایک ملین سے زائد ہے، جن میں سے اکثریت شامی اور عراقی مہاجرین کی ہے، تاہم دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے افراد کی ایک بڑی تعداد نے بھی یورپ کا رخ کیا ہے۔ ترکی کے ساتھ یورپی یونین کے سن 2016ء میں طے پانے والے معاہدے کے بعد بحیرہء ایجیئن کے ذریعے یونان پہنچنے اور پھر دیگر یورپی ممالک کا رخ کرنے والے تارکین وطن کی تعداد میں تو نمایاں کمی ہوئی ہے، تاہم شمالی افریقی ممالک خصوصاﹰ لیبیا سے مہاجرین کی ایک بڑی تعداد یورپی یونین کا رخ کرتی دکھائی دی ہے۔ اٹلی میں انتہائی دائیں بازو کی حکومت کے قیام کے بعد بحیرہء روم میں ریسکیو کیے جانے والے مہاجرین کو قبول نہ کرنے کے فیصلے کے بعد اب اسپین پہنچنے والے تارکین وطن کی تعداد میں بھی اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔
مہاجرین کے بہاؤ کے تناظر میں یورپی یونین کی متعدد رکن ریاستوں میں کئی اہم جماعتوں کو بھی سخت عوامی ردعمل کا سامنا ہے۔ اسی تناظرمیں جرمنی سمیت متعدد یورپی ریاستوں میں مہاجرین مخالف جماعتوں کی مقبولیت میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔
ع ت، م م (روئٹز، اے ایف پی)