تحفظ ماحول: امیر ممالک سالانہ تین سو بلین ڈالر دینے پر راضی
24 نومبر 2024آذربائیجان کے دارالحکومت باکو میں اقوام متحدہ کے ماحولیاتی سربراہی اجلاس یا COP29 میں شریک مندوبین نے دو ہفتوں تک جاری رہنے والی سخت گفت و شنید کے بعد ترقی پذیر ممالک کو موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے نمٹنے کے لیے فنڈز فراہم کیے جانے پر اتفاق کر لیا۔ یہ اتفاق رائے ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب اس کانفرنس کے اختتام پر سامنے آیا۔
اس ضمن میں قدرتی ماحول کے لیے ضرر رساں مادوں اور گیسوں کا زیادہ اخراج کرنے والے دولت مند ملکوں نے 2035ء تک سالانہ 300 بلین ڈالر کی کلائمیٹ فنانسنگ کی پیشکش کی، جو ترقی پذیر ممالک کی امید سے کہیں کم رقم ہے۔ اس معاہدے میں کلائمیٹ فنانسنگ کے لیے 2035ء تک سالانہ 1.3 ٹریلین ڈالر کی رقم جمع کرنے کا ایک وسیع ہدف بھی شامل ہے۔
اس میں سرکاری اور نجی دونوں ذرائع سے فنڈنگ شامل ہوگی، جو ماہرین اقتصادیات کا کہنا ہے کہ گلوبل وارمنگ سے نمٹنے کے لیے ہر سال درکار رقم سے میل کھاتی ہے۔ اس ماحولیاتی کانفرنس نے جمعے کے روز ختم ہونا تھا لیکن اس کے دورانیے میں توسیع کی گئی کیونکہ تقریباً 200 ممالک کے درمیان اگلی دہائی کے لیے ماحولیاتی فنڈنگ کے منصوبے پر اتفاق رائے کے سلسلے میں کافی بحث ومباحثہ کیا گیا۔
اس موقع پر اپنی اقوام کی اس معاہدے میں شمولیت کی کمی سے مایوس ہو کر ترقی پذیر اور چھوٹے جزیروں پر مشتمل ممالک کے مندوبین نے ان خدشات کا حوالہ دیتے ہوئے واک آؤٹ کیا کہ فوسل فیول پیدا کرنے والے ممالک معاہدے کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
معاہدے تک پہنچنے کے لیے 'مشکل سفر‘
2020ء تک غریب ممالک کے لیے سالانہ 100 بلین ڈالر کی کلائمیٹ فنانسنگ فراہم کرنے کا گزشتہ وعدہ دو سال کی تاخیر سے 2022 ء میں پورا ہوا اور اس کی ڈیڈ لائن 2025 ء میں ختم ہونے والی تھی۔ اگرچہ پچھلے معاہدے میں منظور کی گئی رقم میں اضافہ کیا گیا ہے لیکن ترقی پذیر ممالک نے اسے ناکافی قرار دیتے ہوئے اس پر تنقید کی ہے۔
تاہم اقوام متحدہ کی ماحولیاتی ایجنسی کے سربراہ سائمن اسٹیل نے کہا کہ اس معاہدے کو انسانیت کے لیے انشورنس پالیسی کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ اس معاہدے کے طے پانے کے بعد اسٹیل نے کہا، ''یہ ایک مشکل سفر رہا ہے، لیکن ہم نے ایک معاہدہ کیا ہے۔ یہ ڈیل صاف توانائی کے عروج کو برقرار رکھے گی اور اربوں زندگیوں کی حفاظت کرے گی۔‘‘
انہوں نے مزید کہا، ''یہ معاہدہ تمام ممالک کو تحفظ ماحول کے لیے کی جانے والی باہمت کوششوں کے بڑے فوائد میں حصہ لینے میں مدد کرے گا، ان میں زیادہ ملازمتیں، مضبوط ترقی، سب کے لیے سستی اور صاف توانائی کے اقدامات بھی شامل ہیں۔ یہ کسی بھی انشورنس پالیسی کی طرح ہے اور صرف اسی صورت میں کام کرتا ہے، جب پریمیئم مکمل طور پر اور بر وقت ادا کیے جائیں۔‘‘
پیش رفت کو محدود کرنے کی کوششیں
جرمن وزیر خارجہ انالینا بیئربوک نے اس معاہدے کے بعد سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک طویل بیان جاری کیا، جس میں اس بات کو تسلیم کیا گیا کہ COP29 کے دوران ماحولیاتی تبدیلیوں کے مسائل سے نمٹنے کے لیے مزاحمت کا مقابلہ کیا گیا تھا۔ انہوں نے لکھا، ''جی ہاں، آج رات یہاں ہمارا معاہدہ کافی نہیں ہے، ان چند لوگوں کی مزاحمت کی وجہ سے، جو یہاں ترقی اور ماحولیاتی انصاف کو روکنے اور ہمارے اقوام متحدہ کے کثیرالجہتی نظام کو مکمل طور پر کمزور کرنے کے لیے آئے ہیں، وہ بری طرح ناکام رہے ہیں۔‘‘
بیئربوک نے یہ بھی کہا کہ سب سے زیادہ کمزور ممالک کو نظر انداز نہیں کیا جا رہا اور سالانہ 300 بلین ڈالر کا معاہدہ صرف ایک نقطہ آغاز ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ کوئی بھی تاریخی ذمہ داری کو نہیں بھولا۔ ان کا مزید کہنا تھا، ''نوجوان نسل کے ایک رکن کے طور پر مجھ پر یہ بھی واضح ہے کہ ہم ماضی کے حل کے ساتھ مستقبل کے چیلنجوں سے نہیں نمٹ سکتے۔ ہم جانتے ہیں کہ ہمارے اکیلے آج ہی کے فیصلے تمام ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کافی نہیں ہوں گے۔‘‘
ترقی پذیر اقوام کی طرف سے اظہار مایوسی
باکو میں ہال میں موجود افراد کی جانب سے تالیاں بجائے جانے کے باوجود معاہدے پر اتفاق رائے کے حتمی اعداد و شمار پر بھی مایوسی کا اظہار کیا گیا۔ بھارت کی نمائندہ چاندنی رائنا نے کہا کہ اس ایشیائی ملک نے اس دستاویز کو مسترد کر دیا۔ ان کا کہنا تھا، ''ہمیں اس نتیجے پر مایوسی ہوئی ہے، جس سے واضح طور پر ترقی یافتہ ممالک کی جماعتوں کی اپنی ذمہ داریاں نبھانے میں عدم دلچسپی ظاہر ہوتی ہے۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا، ''مجھے یہ کہتے ہوئے افسوس ہو رہا ہے کہ یہ دستاویز ایک نظری فریب سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ یہ ہماری رائے میں ہم سب کو درپیش چیلنج کی وسعت کو دور نہیں کرے گا۔ اس لیے ہم اس دستاویز کو اپنانے کی مخالفت کرتے ہیں۔‘‘ دریں اثناء ملاوی کے سفارت کار اور کم ترقی یافتہ ممالک کے بلاک کے سربراہ ایوانز نجوا نے کہا،''یہ ہدف وہ نہیں ہے جس کی ہمیں توقع تھی۔‘‘
ایک بنیاد کی فراہمی
اس مایوسی کے اظہار کے برعکس یورپی یونین کے ماحولیاتی امور کے کمشنر ووپکے ہوئکسٹرا کے خیال میں ان فنڈز کے کھربوں میں نہ ہونے کے باوجود یہ ایک بڑی ذمہ داری اور ضرورت کو پورا کرنے کے لیے پہلا قدم تھا۔ انہوں نے کہا، ''ان فنڈز اور اس ڈھانچے کے ساتھ، ہمیں یقین ہے کہ ہم 1.3 ٹریلین ڈالر کے ہدف تک بھی پہنچ جائیں گے۔‘‘ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا ضرر رساں مادوں اور گیسوں کے اخراج کو کم کرنے کے لیے کافی پیش رفت ہو رہی ہے، ہوئکسٹرا کا کہنا تھا کہ COP29 کا یہ مقصد نہیں تھا لیکن یورپی یونین نے اس بات کو یقینی بنایا تھا کہ COP29 میں 2030 ء تک اخراج کو 43 فیصد تک کم کرنے کے معاہدے کی حفاظت کی جائے۔
انہوں نے کہا، ''یہ (اخراج کم کرنا) اس COP کا مقصد نہیں تھا لیکن ہم چاہتے تھے کہ اس پر بات ہو کیونکہ دنیا کو اس کی مزید ضرورت ہے۔ یہ ہماری خواہشات سے کم ہے لیکن یہ اس سے بہتر ہے جس کا ہمیں خوف تھا۔ اس لیے ہم ایک سال ضائع ہونے پر ناخوش ہیں لیکن ہم اس لڑائی کو نہ ہارنے پر خوش ہیں۔‘‘
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش نے کہا ہے کہ اس معاہدے کو فوری طور پر حقیقت کی طرف لے جانا چاہیے۔ ان کے بقول، ''میں نے اس سے بہتر نتیجے کی امید کی تھی تاہم یہ معاہدہ ایک بنیاد فراہم کرتا ہے، جس پر تعمیر کی جا سکتی ہے۔ اس کا مکمل احترام کیا جانا چاہیے۔ رقوم کے وعدوں کو فوری طور پر نقدی میں ڈھل جانا چاہیے۔‘‘
ش ر⁄ م م (اے ایف پی، اے پی، روئٹرز)